راہ بھٹک کر حیران نہ ہوا ہو اور نہ کوئی ایسا جو بیماریوں سے تھک کر چور نہ ہوا ہو۔ اے ابن آدم! خالق سے زیادہ کوئی طاقتور نہیں اور مخلوق سے زیادہ کوئی کمزور نہیں، جو چیز ربُّ العز ت کے قبضَۂ قدرت میں ہے کہ جس کا تو طالب ہے اس پر اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے بڑھ کر کوئی قادر نہیں اور جو چیز طالب کے اپنے قبضہ میں ہے، اس چیز پر اس کی قدرت بہت ہی کمزور ہے۔ اے ابن آدم! جو کچھ تیرے پاس سے جاچکا وہ لوٹ کر نہ آئے گا اور جو پاس ہے وہ بھی عنقریب جانے والا ہے۔ لہٰذا جس کا ہونا لازمی ہے اس پر آہ و زاری کیسی؟ اور جس کی امید نہیں اس کی لالچ میں کیا پڑنا؟ جس چیز نے چلے ہی جانا ہے اس کی بقا کے لیے حیلے بہانے کرنے کا کیا فائدہ؟
اے ابن آدم! جس کا ادراک نہیں کر سکتا اس کی طلب سے رک جا اور جسے پانا ممکن نہیں اس کے حصول کی کوششیں چھوڑ دے اور جو نہیں پا سکتا اس کی چاہت مت رکھ۔ جس طرح تیری مطلوبہ چیزیں تجھ سے پیچھے ہٹ گئیں اسی طرح خود سے فضول امیدوں کو ختم کردے۔ جان لے کہ کتنی ہی چیزیں ایسی ہیں جن کی طلب کی جاتی ہے مگر وہ طالب کے لیے نقصان دہ ہیں۔ اے ابن آدم! مصیبت کے وقت صبر کر اور یاد رکھ سب سے بڑی مصیبت برے اخلاق ہیں۔ اے ابن آدم! زمانے کےکتنے دن مال و دولت کی امید لگا ئی جا سکتی ہے اور کو ن سا دن ہے کہ اس کا انجام آنے والے وقت سے مؤخر ہو جائے گا۔ تو زمانے پہ غور کرے تو اس کو تین دن پائے گا: (۱)…ایک دن وہ جو گزر چکا تجھے اس سے کوئی امید نہیں(۲)…ایک دن وہ جو آج موجود ہے اس میں تو اضافہ نہیں کر سکتا(۳)…ایک دن وہ جو آیندہ آئے گا تو اس سے بے خوف مت ہو۔ گزرا ہوا کل ایک امانت تھا جو ادا ہو چکی اور ایسا گواہ تھا جس کی گواہی قبول ہو چکی، وہ اندرونی بیماریوں کا معالج تھا جو اب تجھ سے الٹے قدم پھر چکا لیکن تیرے لیے حکمت کے پھول چھوڑ گیا ہے اور آج کا دن ایک الوداع ہونے والا دوست ہے یہ ایک عرصہ تک چھپا رہا اور اب بہت جلد جانے والا ہے یہ تیرے پاس آیا ہے تو اس کے پاس نہیں آیا اور اس سے پہلے بھی ایک عادل گواہ رخصت ہو چکا اگر اُس میں تیرے لیے کوئی بھلا تھا تو اِس کو بھی اُسی کی طرح گزار ان دونوں کی گواہی تیرے حق میں یا تیرے خلاف زیادہ پختہ ہو گی۔اے ابن آدم! اس سے بڑھ کر کم عقل کون ہے جس نے یقین کو ضائع کیا اور عمل میں خطا کی۔ اے لوگو! اصل بقا تو فنا کے بعد ہے۔ یقیناً ہم پیدا کیے گئے ہیں پہلے تو ہمارا وجود بھی نہ تھا، پھر ہمیں آزمایا جائے گا اور پھر ہم لوٹ کر جائیں گے۔آج ہر چیز مستعار ہے تحائف تو کل