کوئی ذریعہ چن لیتاہے، بے شک! اس چوتھے مرحلے میں بھی اسے ہرگز کوئی فائدہ نہیں پہنچاسکتاسوائے اس ذات کے جس نےاسےپچھلے تینوں زمانوں میں رزق عطا کیا اور بے نیاز رکھا ، اب آدمی کے پاس نہ کوئی عذر ہے اور نہ ہی کوئی چارہ سوائے اس خالق کی رحمت کے جس نے اسے پیدا فرمایا، بے شک ! آدمی شکی مزاج ہے اور اسی وجہ سے آدمی کی عقل و بردباری معرفت الٰہی سے عاجز رہتی ہےاور اس معاملہ میں غورو فکر نہیں کرتا، اگر غورو فکر کرتا توسمجھ جاتا اور اگر سمجھ جاتا تو خوب جان لیتا کہ ربّ تعالیٰ کی تخلیق کو پہچاننے والی نشانی اس کی مخلوق اور وہ رزق ہے جو اس نے اپنی مخلوق کے لیے پیدا فرمایا ہے۔
توکل کا فائدہ:
(4650)…حضرتِ سیِّدُنا عطا خراسانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی فرماتے ہیں کہ راستے میں حضرتِ سیِّدُنا وہب بن منبہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے میری ملاقات ہوئی تو میں نے عرض کی: مجھے کوئی مختصر نصیحت فرمائیے جسے میں ابھی یاد کرلوں۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے فرمایا: اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے حضرتِ سیِّدُنا داؤدعَلَیْہِ السَّلَام کی طرف وحی فرمائی: اے داؤد! میری عزت و جلال کی قسم ! میرا جو بندہ میری مخلوق کو چھوڑ کر مجھے پہچان لیتا ہے حالانکہ میں اس کی نیت کو جانتا ہوں پس ساتوں زمین و آسمان اور ان کے رہنے والے بھی اسے تکلیف پہنچانے کا ارادہ کریں تومیں اس کے لئے کشادگی اور راستہ نکال دیتاہوں ، میری عزت و جلال کی قسم! میرا جو بندہ مجھے چھوڑ کر مخلوق سے ناطہ جوڑ لیتا ہےحالانکہ میں اس کی نیت کو جانتا ہوں،اس سے آسمانی اسباب جدا کردیتاہوں اور زمین اس پر تنگ کردیتا ہوں اور وہ جہاں بھی مرے مجھے کوئی پروا نہیں ۔
دعا سے پہلے عطا:
(4651)…حضرتِ سیِّدُنا وہب بن منبہرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : میں نے ایک (آسمانی )کتاب میںاللہ عَزَّ وَجَلَّ کا یہ فرمان پایا:میں مال کے معاملہ میں اپنے بندے کو کفایت کرتاہوں جب میرا بندہ میرا فرماں بردار ہوتا ہے تو میں اس کے مانگنے سے پہلے ہی اسے عطا کردیتا ہوں اور دعا کرنے سے پہلے ہی اسے قبول کرلیتا ہوں کیونکہ میں اس کے دل کی حاجت جانتاہوں کہ وہ اسے نفع دینے والی ہے۔