Brailvi Books

حِلْیَۃُ الْاَوْلِیَاء وَطَبَقَاتُ الْاَصْفِیَاء(جلد:4)ترجمہ بنام اللہ والوں کی باتیں
38 - 475
  اسْتَعْجَلْتُمۡ بِہٖؕ رِیۡحٌ فِیۡہَا عَذَابٌ اَلِیۡمٌ﴿ۙ۲۴﴾   (پ۲۶،الاحقاف:۲۴)
طرف آتابولے یہ بادل ہے کہ ہم پر برسے گابلکہ یہ تووہ ہے جس کی تم جلدی مچاتے تھے ایک آندھی ہے جس میں دردناک عذاب۔(1)

٭…٭…٭…٭…٭…٭

حضرتِ سیِّدُناوَہْب بن مُنَبِّہرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ 
	حضرتِ سیِّدُنا ابوعبداللہ وہب بن منبہرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہبھی تابعین میں سے ہیں۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نہایت سمجھدارہیں اور ناقابل فہم باتیں کرنے والوں پر غالب آنے والےہیں،برد بار ہیں اور بے وقوفوں کو خود سے دور کرنے والے ہیں۔
مخلوق خالق کے مشابہ ہو ہی نہیں سکتی:
(4645)…حضرتِ سیِّدُنا عقیل بن مَعْقِل بن منبہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بیان کرتے ہیں: میں نے اپنے چچا حضرتِ سیِّدُناوہب بن منبہرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو فرماتے سنا: کیا ابن آدم  نے غوروفکر نہیں کیا  کہ سمجھ لیتا اور عبرت حاصل کرتا پھر  دل کی آنکھ سے دیکھتا اور غورو فکر کرتا حتّٰی کہ جان لیتااور اس پر واضح ہو جاتا  کہ اللہعَزَّ  وَجَلَّ کی ایک صفت حلم ہے اسی کے ذریعے وہ مخلوق میں برد باری پیدا فرماتا ہے، ایک صفت علم ہے اس کے ذریعے علماکو علم سے نوازتا ہے،ایک صفت حکمت ہے اس کے ذریعےمخلوق اس کی نافرمانی سے بچتی اور دنیا و آخرت کے امور کی تدبیرکرتی ہے۔بے شک ابن آدم اپنے محدود علم کے ساتھ اس کے  لا محدود علم پر قدرت حاصل نہیں کر سکتا اوراپنے تھوڑے سے حلم کے ذریعے اس کے عظیم  حلم تک نہیں پہنچ سکتا کہ   جس  کے ذریعے اس  نے تمام مخلوق کو پیدا فرمایااور نہ ہی اپنی کمزور حکمت کے ذریعے اللہ عَزَّ  وَجَلَّکی عالی حکمت تک پہنچ سکتا ہےکہ جس کے ذریعے مخلوق نافرمانی سے بچتی اورتقدیرالٰہی پر عمل کرنے میں غوروفکر کرتی ہے تو ابن آدم اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے مشابہ کیسے ہوسکتا ہے؟ اورمخلوق کیونکر اس کی مثل ہوسکتی ہے۔
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ
1… بخاری،کتاب بدء الخلق،باب ماجاءفی قولہ ٖ:وھوالذی ...الخ،۲/ ۳۷۹ ،حدیث:۳۲۰۶ ،بتغیر