Brailvi Books

حِلْیَۃُ الْاَوْلِیَاء وَطَبَقَاتُ الْاَصْفِیَاء(جلد:4)ترجمہ بنام اللہ والوں کی باتیں
26 - 475
عُمَر بن عبدالعزیز عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْعَزِیْز نے حضرتِ سیِّدُنا طاؤس بن کیسان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْمَنَّان سے کہا:” اپنی حاجت خلیفہ سلیمان بن عبدالملک کےسامنےبیان کیجئے!“آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا:’’مجھے اس سے کوئی حاجت نہیں۔‘‘ حضرتِ سیِّدُناعُمَر بن عبدالعزیز عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْعَزِیْز کو اس بات سے تعجب ہوا۔
	حضرتِ سیِّدُنا سفیان بنعُیَیْنَہرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ حضرتِ سیِّدُناابراہیم بن میسرہ  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ہمارے سامنے کعبَۂ معظَّمہ کے روبروکھڑے ہوکر حلف اٹھاکر فرمایا:” اس عظمت والےگھر کی قسم!میں نے مکّہ معظَّمہ کے سامنے حضرتِ سیِّدُنا طاؤس بن کیسان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْمَنَّانسےبڑھ کر کسی کو عزت دار اور عاجزی کرنے والانہیں پایا۔‘‘
مال سے بے پروا بندے:
(4618)…حضرتِ سیِّدُناابوعاصم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْحَاکِم بیان کرتے ہیں کہ شایدحضرتِ سیِّدُنا سفیان بن عُیَیْنَہرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے مجھے بتایا کہ خلیفہ سلیمان بن عبدالملک کابیٹاآیااورحضرتِ سیِّدُنا طاؤس بن کیسان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْمَنَّان کی ایک جانب بیٹھ گیامگرآپ نے اس کی طرف توجہ نہ فرمائی،کسی نے عرض کی: آپ کے پاس خلیفہ کا بیٹا بیٹھاہے مگر آپ اس کی جانب توجہ نہیں فرمارہے۔فرمایا: میں چاہتا ہوں وہ جان لےکہاللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے ایسے بندے بھی ہیں جو ان کے  مال سے بے پروا رہتے ہیں۔
(4619)…حضرتِ سیِّدُنا اِبْنِ طاؤس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بیان کرتے ہیں:میں عرصہ دراز تک اپنے والدِماجد حضرتِ سیِّدُناطاؤس بن کیسان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْمَنَّانکی خدمت میں عرض کرتا رہا کہ آپ کو خلیفَۂ وقت کے دربار میں جاکر بیٹھنا چاہیے۔ مزید فرماتے ہیں:ایک مرتبہ ہم حج کے ارادے سے نکلے،راستے میں ایک بستی میں ٹھہرے جہاں محمدبن یوسف یاایوب بن یحییٰ کی جانب سے ابن نجیح نامی گورنرمقررتھاجس کا شماربدترین گورنروں میں ہوتا تھا،ہم نمازِفجرکے لئے  مسجد پہنچے تواِبْنِ نجیح کوبھی والدِمحترم کے آنے کی خبر ہوگئی۔چنانچہ وہ آیااور والدصاحب کے سامنے بیٹھ کر سلام عرض کیامگرآپ نے جواب نہ دیا،اس نے گفتگو کی تو آپ نے منہ پھیرلیا،وہ بائیں جانب سے آیاتوآپ نے پھرمنہ پھیر لیا،یہ صورتِ حال دیکھ کرمیں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور حال احوال پوچھتے ہوئے کہا:’’ابوعبد الرحمٰن آپ کو پہچان نہیں سکے(اسی لئے یہ معاملہ پیش آیا)۔‘‘اِبْنِ نجیح