ایک نظر ادھر بھی
ارشادباری تعالیٰ ہے:
وَالسّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ مِنَ الْمُہٰجِرِیۡنَ وَالۡاَنۡصَارِ وَالَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُمۡ بِاِحْسَانٍ ۙ رَّضِیَ اللہُ عَنْہُمْ وَرَضُوۡا عَنْہُ وَ اَعَدَّ لَہُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیۡ تَحْتَہَا الۡاَنْہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ؕ ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیۡمُ ﴿۱۰۰﴾ (پ۱۱، التوبۃ:۱۰۰)
ترجمۂ کنزالایمان:اور سب میں اگلے پہلے مہاجر اور انصاراور جو بھلائی کے ساتھ ان کے پَیرو (پیروی کرنے والے)ہوئے اللّٰہان سے راضی اور وہ اللّٰہسے راضی اور ان کے لئے تیار کر رکھے ہیں باغ جن کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں یہی بڑی کامیابی ہے ۔
آیت مبارکہ میںاللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی رضااور جنت کی خوشخبری پانے والے خوش بخت افرادسے مراد حضراتِ صحابۂ کرام رِضْوَانُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَـیْہِمْ اَجْمَعِیْن اورقیامت تک کے وہ ایماندارلوگ ہیں جو ایمان ،ا طاعت اور نیکی میں ان کی راہ چلیں(۱)…اورایساکیوں نہ ہوکہ ان پیشواؤں اور پیروکاروں نے قرآنی علوم کو پھیلانے کا فریضہ بحسن وخوبی انجام دیا اوربہترین افراداُمت اور عزت وعظمت کا معیار قرار پائے جیساکہ حدیث پاک میں ہے:’’خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْاٰنَ وَعَلَّمَہٗیعنی تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور دوسروں کو سکھائے۔‘‘…حضرات صحابۂ کرام رِضْوَانُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَـیْہِمْ اَجْمَعِیْن سے سلسلہ درسلسلہ علم کی یہ خیرات آگے پہنچتی رہی اورانسانوں کی جھولیاں دولت علم سے بھرتی گئیں اور روح وبدن زیور عمل سے مزین ہوتے گئے …علم وعمل سے مزین اِن مردانِ حق نے ہر دور میں جانشینیٔ رسول کودل وجان سے نبھایا…مگر ان کے بعد ایسے ناخلف آئے کہ اپنے اسلاف کے علمی وعملی سرمایہ کی حفاظت نہ کرپائے اور محض اسلاف کے کارناموں پر خوش ہونے اور ان کا نام لینے تک محدودہوگئے ۔بقولِ شاعر:
تھے وہ تمہارے ہی آباء تم کیا ہو ہاتھ پہ ہاتھ رکھے منتظر فرداہو
جبکہ دوسری طرف دورِ زوال کی استعماری قوتوں (آزاد ملکوں کو غلام بنانے والی طاقتوں)نے ایک بڑا حملہ مسلمانوں کے علمی اور عملی نظام پر کیااوران پر خودساختہ نصاب اورنظام مسلط کردیا تاکہ نئی نسلوں کو اسلاف سے بیگانہ اور اسلام کی زریں تعلیمات سے بے بہرہ کردیاجائے۔
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ
1…ماخوذ از خزائن العرفان ۔