رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ صحابہ میںبڑی عمروالے تھے۔ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ یہ پسند کرتے تھے کہ ان کی رُوح قبض کرلی جائے اور یوں دُعا مانگا کرتے تھے: اَللّٰہُمَّ کَبُرَتْ سِنِّیْ وَوَھَنَ عَظْمِیْ فَاقْبِضْنِیْ اِلَــیْک یعنی اے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ! میں بوڑھا ہوگیا ہوں، میری ہڈیاں بھی کمزور پڑگئی ہیں اب میری رُوح قبض فرمالے۔ (۱)
حضرتِ سیِّدُنا عبداللّہ بن حُبْشِی خَثعَمیرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ
حضرتِ سیِّدُنا ابوسعید بن اعرابی عَلَـیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی سے منقول ہے کہ حضرتِ سیِّدُنا عبداللّٰہ بن حُبْشی خَثْعَمی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ بھی اہلِ صفہ میں سے ہیں۔
افضل عمل کون ساہے؟
(1373)…حضرتِ سیِّدُنا عبداللّٰہ بن حُبْشی خَثْعَمی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ بارگاہِ رسالت میں عرض کی گئی: ’’یارَسُوْلَ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! کون سا عمل افضل ہے؟‘‘ ارشاد فرمایا: ’’پختہ ایمان اور وہ جہاد جس (کے مالِ غنیمت) میںخیانت نہ ہواور حجِ مقبول۔‘‘ عرض کی گئی: ’’نماز کا کون سا عمل افضل ہے؟‘‘ ارشاد فرمایا: ’’طویل قیام۔‘‘ پھر عرض کی گئی: ’’کون سا صدقہ افضل ہے؟‘‘ ارشاد فرمایا: ’’فقیر کی طاقت (۲)۔‘‘ (۳)
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ
1…المعجم الکبیر، الحدیث:۶۱۶، ج۱۸، ص۲۴۵۔
2…مفسرشہیر، حکیم الامت مفتی احمد یار خان نَعِیْمِی عَلَـیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی مراٰۃ المناجیح، جلد5، صفحہ440 پر اس کے تحت فرماتے ہیں: اس فرمانِ عالی کے دومطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ غریب آدمی مشقت سے پیسہ کمائے پھر اس میں سے خیرات کرے۔ دوسرے یہ کہ فقیر کو خود بھی ضرورت ہو، خود مشقت وتکلیف میں ہو اس کے باوجود اپنی ضرورت روک کر خیرات کرے، دوسرے کی ضرورت کو مقدم رکھے۔ مگر یہ دوسرے معنی اس فقیر کے لئے ہوں گے جو خود صابر ہو اور اکیلا ہو بال بچے نہ رکھتا ہو ورنہ آج خیرات کرکے کل خود بھیک مانگنا یوں ہی بال بچوں کے حقوق مارکر خیرات کرنا کسی طرح جائز نہیں (مرقات) ہاں اگر کسی کے بال بچے حضرت ابوبکر صدیق (رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ) کے گھروالوں کی طرح صابر ہوں پھر وہ جناب صدیق (رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ) کی طرح خیرات کردے تویہ اس کی خصوصیت ہے، سلطانِ عشق کے فیصلے عقل سے وراء ہیں۔
3…سنن النسائی، کتاب الزکاۃ، باب جھد المقل، الحدیث:۲۵۲۳، ص۴۱۵، ’’القیام‘‘ بدلہ ’’القنوت‘‘۔