فرمائی: ’’اے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ! اسے اس گروہ میں شامل فرما!‘‘ پھر دوسرا شخص (۱) عرض گزار ہوا: ’’یارَسُوْلَ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! دعا فرمائیے کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ مجھے بھی ان میں شامل فرما دے۔‘‘ ارشاد فرمایا: ’’اس دعا میں عُکاشہ تم پر سبقت لے گئے۔‘‘ پھر صحابۂ کرام رِضْوَانُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَــیْہِمْ اَجْمَعِیْن 70ہزار کے بارے میں آپس میں تذکر ہ کرنے لگے (کہ وہ خوش نصیب لوگ کون ہیں)۔ جب یہ بات سرورِکائنات، شاہِ موجودات صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو معلوم ہوئی تو ارشاد فرمایا: ’’یہ وہ لوگ ہیں جو داغ نہیںلگاتے، منتر جنتر نہیں کرتے، فال کے لئے چڑیاں نہیں اڑاتے (۲) اور اپنے رب عَزَّوَجَلَّ پر بھروسا کرتے ہیں۔‘‘ (۳)
حضرتِ سیِّدُنا عِرباض بن ساریہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ
حضرتِ سیِّدُنا عِرباض بن ساریہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کا شمار بھی اہلِ صفہ میں ہوتا ہے۔ آپ اور چند دیگر صحابہ جو خوفِ خدا کے باعث بہت گریہ کناں رہتے تھے ان کے متعلق یہ آیت ِ مبارکہ نازل ہوئی: تَوَلَّوۡا وَّ اَعْیُنُہُمْ تَفِیۡضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا اَلَّا یَجِدُوۡا مَا یُنۡفِقُوۡنَ ﴿ؕ۹۲﴾ (پ۱۰، التوبۃ:۹۲) ترجمۂ کنزالایمان: اس پر یوںواپس جائیں کہ ان کی آنکھوں سے آنسو ابلتے ہوں اس غم سے کہ خرچ کا مقدور نہ پایا۔
پہلی صف کی فضیلت:
(1369)…حضرتِ سیِّدُنا جُبَیر بن نُفَیر رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَـیْہ بیان کرتے ہیں: مجھے حضرتِ سیِّدُنا عِرباض بن ساریہ
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ
1…مفسرشہیر، حکیم الامت مفتی احمد یار خان نَعِیْمِی عَلَـیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی مراٰۃ المناجیح، جلد7،صفحہ111 پر اس کے تحت فرماتے ہیں: یہ دوسرے صاحب حضرت سعد ابن عبادہ تھے (اشعہ ومرقات) اسی جواب عالی سے معلوم ہوا کہ حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو سب کے انجام سب کے مقام و درجات کی خبر ہے کہ ایک صاحب کے لئے دعا فرمائی خبر تھی کہ یہ ان میں سے ہیں دوسرے کے لئے خبر تھی یہ ان میں سے نہیں۔ اب جواب کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جنت میں اب کوئی سیٹ خالی نہیں رہی یا وہ جماعت پوری ہوچکی تم کیسے داخل ہوگے۔ مطلب یہ ہی ہے کہ تم اس جماعت سے نہیں تمہارے لئے دعا کیسے کی جائے۔
2…صفحہ108 پر فرماتے ہیں: یعنی کفار کے چھوچھاسے بچتے ہیں ورنہ قرآنی آیات دعاء ِماثورہ سے دم کرنا سنت ہے بلکہ نامعلوم منتر پڑھنا ہی گناہ ہے جس کے معنی کی خبر نہ ہو کیونکہ ممکن ہے کہ ان الفاظ کے شرکیہ معانی ہوں لہٰذا حدیث بالکل ظاہر ہے۔ اہلِ عرب جب کسی کام کو جاتے تو چڑیوں سے فال لیتے تھے کہ کوئی چڑیا دیکھتے تو اسے اڑاتے اگر داہنی طرف اڑجاتی تو کہتے کہ ہمارا کام ہوجاوے گا اگر بائیں طرف اڑتی تو کہتے کہ ہمارا کام نہ ہوگا واپس لوٹ آتے یہ حرام ہے۔
3…مسند ابی داود الطیالسی، الحدیث:۴۰۴، ص۵۳تا۵۴۔