نجات کاذریعہ:
(1355)…حضرتِ سیِّدُناعُقْبَہ بن عامر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں کہ میں نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی: ’’یارَسُولَ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! نجات کا ذریعہ کیاہے؟‘‘ارشاد فرمایا: ’’اپنی زبان کو قابو میں رکھو اورتم کو تمہارا گھر کافی ہو (۱) اور اپنی خطاؤں پر رو۔‘‘ (۲)
عزت وکرامت والے:
(1356)…حضرتِ سیِّدُنا ابواسحاق عبداللّٰہ بن عطا ء رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَـیْہ سے مروی ہے کہ حضرتِ سیِّدُنا عُقْبَہ بن عامر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا: ’’ہم نے اونٹ چَرانے کی باریاں مقرر کی ہوئی تھیں۔ جب میری باری ہوتی تو میں اونٹ چرنے کے لئے چھوڑ دیتا اور خود بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوجاتا۔ ایک مرتبہ میں بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوا تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ میں نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو ارشاد فرماتے سنا کہ ’’لوگ ایک میدان میں جمع کئے جائیں گے۔ نظر سب تک پہنچے گی اور پکارنے والا سب کو آواز سنائے گا۔ پھر ایک پکارنے والا تین بار اعلان کرے گا: جمع ہونے والے جان جائیں گے کہ عزت وکرامت کن کے لئے ہے؟ پھر اعلان کرے گا کہ کہاں ہیں وہ لوگ جن کے بارے میں ارشاد ہوا:
تَتَجَافٰی جُنُوۡبُہُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوۡنَ رَبَّہُمْ خَوْفًا وَّ طَمَعًا ۫ (پ۲۱، السجدۃ:۱۶)
ترجمۂ کنزالایمان: ان کی کروٹیں جدا ہوتی ہیں خوابگاہوں سے او راپنے رب کو پکارتے ہیں ڈرتے اور امید کرتے۔
پھر تین بار آواز لگائے گا کہ جمع ہونے والے عنقریب جان جائیں گے کہ عزت وشرافت کن کے لئے ہے؟ پھر کہے گا کہ کہاں ہیں جن کے بارے میں فرمایا گیا:
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ
1…مفسرشہیر،حکیم الامت مفتی احمد یار خان نَعِیْمِیعَلَـیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوی مراٰۃُ المناجیح، جلد6، صفحہ464 پر اس کے تحت فرماتے ہیں: یعنی بلاضرورت گھر سے باہر نہ جاؤ لوگوں کے پاس بلاوجہ نہ جاؤ، گھر سے نہ گھبراؤ اپنے گھر کی خلوت کو غنیمت جانو کہ اس میں صدہا آفتوں سے امان ہے۔ بزرگ فرماتے ہیں کہ سکوت، لزوم بیوت اور قناعت بالقوت اِلٰی اَنْ یَّمُوْت امان کی چابی ہے۔ یعنی خاموشی، گھر میں رہنا، رب کی عطا پر قناعت موت تک اس پر قائم رہنا۔
2…سنن الترمذی، کتاب الزہد، باب ماجاء فی حفظ اللسان، الحدیث:۲۴۱۴، ج۴، ص۱۸۲۔