Brailvi Books

حِلْیَۃُ الْاَوْلِیَاء وَطَبَقَاتُ الْاَصْفِیَاء(جلد:2)ترجمہ بنام اللہ والوں کی باتیں
14 - 603
چور کی سزا:
(1346)…حضرتِ سیِّدُنا عبداللّٰہ بن زیدجُہنی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ حضور پر نور، شافع یوم النشور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’جوشخص کوئی قابل قدر چیز چرائے تواس کا ہاتھ کاٹ دو۔ پھر چوری کرے تو اس کا پاؤں کاٹ دو۔ پھر چوری کرے تو اس کاہاتھ کاٹ دو۔ اگرپھرچوری کرے تو اس کا پاؤں کاٹ دو اور اگر اس کے بعد بھی چوری کرے تواسے قتل کردو  (۱)۔‘‘(۲)
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ
1…مفسرشہیر،حکیم الامت مفتی احمدیار خان نَعِیْمِی عَلَـیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوی مراٰۃ المناجیح، جلد5، صفحہ307 پر فرماتے ہیں: پہلی چوری میں چور کا داہنا ہاتھ کلائی سے کاٹ دو، دوسری چوری میں بایاں پاؤں ٹخنوں سے کاٹ دو، تیسری چوری میں دایاں پاؤں، چوتھی چوری میں بایاں ہاتھ کاٹ دو۔ پہلی دوسزاؤں میں اجماع امت ہے۔ مگرآخری دوسزاؤں میں امام اعظم (عَلَـیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْاَکْرَم) کا اختلاف ہے، امام اعظم (عَلَـیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْاَکْرَم) فرماتے ہیں کہ تیسری چوری میں اسے قید کردیا جائے حتّٰی کہ یا مرجائے یا سچی توبہ کے آثار اس میں نمودار ہوجائیں، امام اعظم (عَلَـیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْاَکْرَم) کی دلیل (امیرالمؤمنین) حضرت علی (المرتضیٰ کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم) کا فرمان ہے کہ میں شرم کرتاہوں کہ اس چورکے کھانے کے لئے ہاتھ اور چلنے کے لئے پاوں بالکل نہ چھوڑوں۔ چنانچہ، آپ (رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ) نے تیسری چوری پرقید کیااور آپ کا یہ عمل تمام صحابہ وتابعین (رِضْوَانُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن) کی موجودگی میں ہوا اور کسی نے اعتراض نہ کیالہٰذا اس پر اجماع منعقدہوگیا۔
	شیخُ الاسلام،بُرہانُ الدِین ابوالحسن علی بن ابوبکربن عبدالجلیل مرغینانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی (متوفی۵۹۳ ھ) فرماتے ہیں: چور کا داہنا ہاتھ کلائی سے کاٹ کر گرم تیل سے داغاجائے گا۔ اگر چور دوسری بار چوری کرے تواس کا بایاں پاؤں کاٹا جائے گا اور تیسری بار چوری کرنے پر اس کا ہاتھ یا پاؤں نہیں کاٹا جائے گا بلکہ اسے قید میں ڈال دیا جائے گا حتی کہ وہ توبہ کرلے۔ حضرت سیِّدُناامام اعظم عَلَـیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْاَکْرَم کی دلیل امیرالمؤ منین حضرت سیِّدُنا علی المرتضی کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کا فرمان ہے کہ میں شرم کرتا ہوں کہ اس چور کے کھانے کے لئے ہاتھ اور چلنے کے لئے پاؤں بالکل نہ چھوڑوں۔ اسی دلیل سے امیرالمؤمنین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ دیگر صحابہ پرغالب آگئے اور اس پر اجماع ہوگیا۔ نیز چور کے تمام ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالنا اسے قتل کرنے کے مترادف ہے اور حد (یعنی سزا) زجر کے لئے ہے ہلاکت کے لئے نہیں۔ نیز جن احادیث میں تیسری، چوتھی بار کاٹنے یاقتل کرنے کابیان ہے ان پرجرح کی گئی ہے یا پھر وہ سیاست پر محمول ہیں۔
(الہدایہ، کتاب السرقۃ، باب مایقطع فیہ ومالایقطع، فصل فی کیفیۃ القطع واثباتہ، ج۱، الجزء الثانی، ص۳۶۹تا۳۷۰، ملخصًا)
2…معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم، الرقم:۱۶۴۳عبداللّٰہ بن زیدجھنی،  الحدیث:۴۱۷۹،ج۳، ص۱۵۲۔
	معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم، الرقم:۱۵۷۸، عبداللّٰہ بن بدر الجہنی، الحدیث:۴۰۴۱، ج۳، ص۱۰۸۔