اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم! یہ معاملہ اسی طر ح رہے گا یہاں تک کہ تمہارے لئے ایران، روم اور (یمن کا شہر) حِمْیَر فتح ہوجائے گا اور تم تین لشکروں میں بٹ جاؤ گے۔ ایک لشکر شام میں، ایک عراق میں اور ایک یمن میں ہوگا حتی کہ آدمی کو 100دینار دئیے جائیں گے تووہ اسے بھی کم سمجھے گا۔‘‘ (۱)
حضرتِ سیِّدُنا عبداللّہ بن ام مکتومرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ
حضرتِ سیِّدُنا ابورَزِین عَلَـیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْمُبِیْن سے منقول ہے کہ حضرتِ سیِّدُنا عبداللّٰہ بن امِ مکتوم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ بھی اہلِ صفہ میں سے ہیں۔ آپ غزوہ ٔبدر کے کچھ عرصہ بعد مدینۂ منورہ زَادَہَااللّٰہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًا حاضر ہوئے اور اہلِ صفہ کے ساتھ رہنے لگے۔ پھر حضور نبی ٔ پاک، صاحب ِ لولاک، سیاحِ افلاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے انہیں مَخْرَمَہ بن نَوْفَل کے گھر ٹھہرایا جسے دارالغذا کہاجاتا تھا۔ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے بارے میں قرآنِ پاک میں یہ آیات نازل ہوئیں:
عَبَسَ وَ تَوَلّٰۤی ۙ﴿۱﴾ اَنۡ جَآءَہُ الْاَعْمٰی ؕ﴿۲﴾ (پ۳۰، عبس:۱،۲)
ترجمۂ کنزالایمان: تیوری چڑھائی اور منہ پھیرا اس پر کہ اس کے پاس وہ نابینا حاضر ہوا۔ (۲)
تھوڑا ہنستے زیادہ روتے:
(1342)…حضرتِ سیِّدُنا ابوبَخْتَرِی طائی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَــیْہ سے مروی ہے کہ حضرتِ سیِّدُنا ابن امِ مکتوم رَضِیَ اللّٰہُ
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ
1…مشکل الآثار، باب بیان مشکل ماروی عن رسول اللّٰہ فی قطع المسلمین…الخ، الحدیث:۱۲۶۱،ج۱، جز۲، ص۲۵۔
2…مفسرشہیر، حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی عَلَـیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی تفسیر نورالعرفان سورۂ عبس کے تحت فرماتے ہیں: غائب کا صیغہ فرمانے میں انتہائی محبوبیت کا اظہار ہے، یعنی ہمارے ایک محبوب ہیں جو اپنے ایک غلام سے ناراض ہوگئے۔ خیال رہے کہ یہاں کوتاہی حضرت عبداللّٰہ بن ام مکتوم (رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ) کی تھی کہ درمیان کلام سوال عرض کردیا، یہ آدابِ مجلس کے خلاف تھا۔ حضور (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) کی کبیدگی خاطرشریف بالکل حق تھی، مگرعشاق آداب سے بے خبر ہوتے ہیں، ان کے ایسے قصور معافی کے لائق ہیں، اس لئے انہیں نابینا فرمایا، یعنی جو آپ کے عشق میں آداب سے نابیناہے، رب (عَزَّوَجَلَّ) نے حضور (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) کے عاشق کی طرفداری فرمائی اس میں بھی حضور (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) ہی کی شان کا اظہار ہے کہ ان کے عاشق کی غلطیاں معاف ہیں۔