آپ نے اس میں سے کچھ نہ لیا اسی سفر میں واپسی کے دوران آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا زادِ راہ ختم ہوگیا تو درخت کے پتے کھا کر گزارا کیا جس کی وجہ سے مدینے پہنچ کر آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ بیمار پڑگئے۔(تاریخ ابن عساکر،ج 55،ص281)
شریعت پرعمل کی اعلی مثال: اسی سفر میں ایک مقام پر شدید بھوک لگ رہی تھی کہ بکریوں کے ایک ریوڑ پر نظر پڑی، غلام کو اپنا عمامہ دیا اور فرمایا: چرواہے کے پاس جاؤ اور میرے عمامے کو بیچ کر اس سے ایک بکری خرید لو، غلام بکری خرید لایا، آپ اس وقت نماز پڑھ رہے تھے غلام نے بکری کو ذبح کرنا چاہا تو آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اسے اشارے سے منع کردیا پھر نماز مکمل کرکے فرمایا: چرواہے کے پاس دوبارہ جاؤ اگر وہ غلام ہے تو (ظاہر ہے کہ غلام کو بکریوں کی نگہبانی اور انہیں چرانے کا کام دیا جاتا ہے نہ کہ اس بات کی اجازت ہوتی ہے کہ جب چاہے جس بکری کو بیچ دے لہذا) بکری اسے واپس کردینا اور عمامہ لے لینا اور اگر وہ آزاد ہے توبکری کو واپس لے آنا ،غلام چرواہے کے پاس گیا تومعلوم ہوا کہ وہ غلام ہے اور ان بکریوں کا مالک نہیں ہے لہذا آپ کاغلام بکری واپس کرکے آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا عمامہ لے آیا۔ (تاریخ ابن عساکر،ج 55،ص279) یہ واقعہ سن 17 ہجری بمطابق 638 عیسوی میں پیش آیا۔ سن 20 ہجری میں مسلمانوں کی افواج مصر میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئیں تو ان میں آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی شامل تھے۔ (النجوم الزاہرۃ،ج 1،ص20)بارگاہِ رسالت سے تحفہ اور حکم نامہ:سرورِ عالم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اپنے دستِ انور سے ایک تلوا ر عطا کی اور فرمایا: جب تک مشرکین سے جنگ و جدال ہو تا رہے اس تلوار سے انہیں قتل کرنا پھر جب مسلمانوں کے دو گرہوں کو آپس میں لڑتےہوئے دیکھو تواس تلوار کو پتھر پر مار کر توڑ دینا اور اپنی زبان اور ہاتھ کو روک کر گھر میں بیٹھ جانا یہاں تک کہ ظالم کا ہاتھ تم تک پہنچ جائے یا تمہیں موت آجائے ۔لکڑی کی تلوار: سن 35 ہجری میں امیر المؤمنین حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شہادت کے بعد مسلمانوں میں اختلاف بڑھا تو آپ نے اسی تلوار کو ایک چٹان پر مار مار کر توڑ دیا۔ (اسلام کے نام پر تَن مَن دَھن کی بازی لگانے والے یہ جانباز صحابیِ رسول رضی اللہ تعالٰی عنہ تلوار کےبغیر نہ رَہ سکے آخرِ کار )آپ نے عُود کی ایک لکڑی کو چھیل کر تلوار بنائی اور اسے نِیام (تلوار رکھنے کے غلاف )میں رکھ کر گھر میں لٹکادیا۔ (طبقات ابن سعد،ج 3،ص339)وصال مبارک: 77 سال کی عمر پاکر ماہِ صفر المظفر 43 یا 44ہجری میں اس دنیائے ناپائیدار سے عالمِ بَقا کی جانب سفر اختیار فرمایا، ایک قول کے مطابق ایک شامی شخص نے آپ کو گھر میں گھس کر شہید کیا تھا۔ (الاصابۃ،ج 6،ص29) آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی قبر مبارک مدینے کے قریب مقامِ رَبَذَہ میں حضرتِ سیّدنا ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پہلو میں ہے ۔ (الوافی بالوفیات،ج5،ص21)