Brailvi Books

فیضان امام اہل سنت صفرالمظفر1440نومبر2018
33 - 70
تاجروں کے لئے
بُزرگوں کے پیشے
حضرت سیّدنا ابراہیم بن اَدْہم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم کا تعارف اور ان کا پیشہ
(عبد الرحمٰن عطاری مدنی(1))
پیشوائے اُمّت، زاہدوں کے سردار، عارف بِاللہ حضرت سیّدنا ابراہیم بن اَدْہم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم اِمامُ الائِمّہ، سِراجُ الاُمّہ امامِ اعظم ابو حنیفہ، حضرت سفیان ثَوری اور حضرت فُضَیْل بن عِیاض رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم کے صحبت یافتہ تھے۔ آپ کی ولادت سن 100ھ کے آخر میں حج کے موقع پر مکۂ مکرمہ میں ہوئی جبکہ آپ کا تعلق بَلْخ سے تھا اور بادشاہوں کی اولاد میں سے تھے۔ ایک دن آپ شکار کے لئے گئے، وہاں آپ کو غیبی آواز آئی جس سے آپ کے دل کی دنیا بدل گئی اور آپ نے دنیا کو خیرباد کہہ دیا۔ ایک قول کے مطابق آپ کا وصال 162ھ میں ہوا اور مزارمبارک شام میں حضرت سیّدنا لوط علٰی نَبِیِّنَاوعلیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام کے مزارمبارک کے پاس ہے۔(سیر اعلام النبلاء،ج 7،ص 295،294،300، رسالہ قشیریہ، ص22، تذکرۃ الاولیاء، ص88،87)
ذریعۂ آمدن
 آپ رزقِ حلال حاصل کرنے کے لئے چھوٹے موٹے کام کرنے میں کسی قسم کی شرم محسوس نہ کرتے تھے چنانچہ گزر اوقات کے لئے فصلیں اور کھیتیاں کاٹنے کا کام کرتے، باغات کی حفاظت کرتے، اُجرت پر لوگوں کا سامان اٹھاتے اور غلّہ پِیسا کرتے تھے۔(الاعلام للزرکلی،ج 1،ص31) ایک مرتبہ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی گردن پر لکڑیوں کا گٹھا دیکھ کر کسی نے پوچھا: اے ابو اسحٰق! ایسا کب تک ہوگا؟ حالانکہ آپ کے بھائی آپ کو کافی ہیں۔ تو آپ نے جواب دیا: اس بات کو رہنے دو! مجھے خبر پہنچی ہے کہ جو رزقِ حلال کی تلاش میں ذلت کی جگہ کھڑا ہوتا ہے اس کے لئے جنّت واجب ہوجاتی ہے۔ (احیاء العلوم،ج 2،ص81)
اُجرت ایک آدمی کی اور کام دو آمیوں جتنا! 
حضرت سیِّدُنا ابراہیم بن ادہم علیہ رحمۃ اللہ الاَکرم فرماتے ہیں: ایک مرتبہ میں عربی جوانوں کے ساتھ فصل کاٹنے میں مصروف تھا، مجھے کٹائی کی اتنی اجرت ملا کرتی جتنی ان میں  سے کسی ماہر کو ملتی تھی، میں نے اپنے آپ سے کہا: میں ان ماہرین جیسی طاقت نہیں رکھتا اور نہ ہی اچھی طرح فصل کاٹ سکتا ہوں چنانچہ میں ان سے الگ ہو جاتا حتّٰی کہ جب وہ اپنے بستروں پر سو جاتے تو میں دَرانْتی لے کر فصل کی کٹائی کرتا رہتا اور صبح  تک مناسب کٹائی کر چکا ہوتا، میں انہیں آپس میں سرگوشیاں کرتے ہوئے سنتا، وہ کہہ رہے ہوتے: ہم اتنے کام کی طاقت نہیں رکھتے، یہ تو دن رات کٹائی کرتا ہے جبکہ اُجرت ایک آدمی کے برابر ہی لیتا ہے۔(حلیۃ الاولیاء،ج7،ص436)
دورانِ کام مال کی نگرانی!
 آپ ایک مرتبہ انگور کے باغ کی نگرانی کر رہے تھے، یزید نام کا ایک شخص آپ کے پاس سے گزرا اور بولا: ہمیں ان انگوروں میں سے کچھ دو۔ آپ نے فرمایا: مجھے اس کے مالک نے اجازت نہیں دی۔ یہ سُن کر اس نے اپنا چابک لہرایا اور آپ کو بالوں سے پکڑ کر چابک آپ کے سَر پر  مارنے لگا، آپ نے اپنا سَر جھکا لیا اور فرمایا: مارو اس سر پر جو طویل عرصے سے اللہ پاک کی نافرمانی میں مبتلا ہے۔ راوی کا بیان ہے:یہاں تک کہ وہ آپ کو مار مار کر تھک گیا۔(حلیۃ الاولیاء،ج 7،ص437)
بغیر اُجرت بھی لوگوں کا کام کردیتے:
حضرت سیِّدُنا ابراہیم بن ادہم علیہ رحمۃ اللہ الاَکرم  جب عشا کی نماز پڑھ لیتے تو لوگوں کے گھروں کے سامنے کھڑے ہوکر بآوازِ بلند فرماتے: کیا کوئی غلّہ پسوانا چاہتا ہے؟ تو کوئی عورت یا بوڑھا ٹوکری نکال کر رکھ دیتا، آپ اپنے دونوں پاؤں کے درمیان چکی رکھ لیتے اور اس وقت تک نہ سوتے جب تک وہ غلّہ بِلا اُجرت پیس کر نہ دے دیتے، پھر اپنے ساتھیوں کے پاس لوٹ آتے۔ (حلیۃ الاولیاء،ج 7،ص430) 



________________________________
1 - ماہنامہ فیضان مدینہ باب المدینہ کراچی