کے چہروں پر چھائی رہتی، ان کی مسکراہٹ پھیکی پھیکی سی اور کم دورانیہ والی ہوتی ہے، لوگ ان کے قریب جانا پسند نہیں کرتے، جو مجبوری کی وجہ سے قریب ہوتے ہیں وہ دور ہونے کی فکر میں لگے رہتے ہیں۔
پہلے تولو! بعد میں بولو!:
لہٰذا یہ سوچنا ضَروری ہے کہ میرے بولنے کا مقصد کیا ہے، کسی کا دل دُکھانا یا خوش کرنا، گالی دینا یا دعا دینا، کسی کی حوصلہ افزائی کرکے اس کے لئے ترقّی کی راہیں ہموار کرنا یا پھر کسی کی حوصلہ شکنی کرکے اسے ناکارہ بنا دینا وغیرہ، میری تمام مسلمانوں سے فریاد ہے کہ جس طرح ہم اپنے ہاتھ کو چلاتے ہوئے سوچتے ہیں کہ کہیں یہ کسی کو لگ نہ جائے یا کسی چیز سے ٹکرا کر زخمی نہ ہوجائے تو اسی طرح زبان کے استعمال سے پہلے بھی ہمیں سوچنا اور اس مدنی پھول ”پہلے تولو! بعد میں بولو!“ پر عمل کرنا چاہئے۔ اللہ پاک ہمیں احترامِ مسلم کا جذبہ عطا فرما کر پہلے تولنے اور بعد میں بولنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم