Brailvi Books

فیضان امام اہل سنت صفرالمظفر1440نومبر2018
25 - 70
ہیں مثلاً کام کرنے کا طریقہ دُرُست نہ ہونا، غَلَط وَقْت اور غَلَط جگہ پر کام کرنا اور ناتجربہ کاری لیکن بَدشگونی کا عادی شخص اپنی ناکامی کا سبب نُحوست کو قرار دینے کی وجہ سے اپنی اِصلاح سے محروم رہ جاتا ہے ٭بَدشگونی کی وجہ سے آپس کی ناچاقیاں جنم لیتی ہیں جن کے سبب رشتے ناطے ٹوٹ جاتے ہیں ٭جو لوگ اپنے اوپر بَدفالی کا دروازہ کھول لیتے ہیں انہیں ہرچیز منحوس نظر آنے لگتی ہے، ایک شخص صبح سویر ے اپنی دکان کھولنے جاتاہے راستہ میں کوئی حادثہ پیش آیا تو سمجھ لیتاہے کہ آج کا دن میرے لئے منحوس ہے لہٰذا آج مجھے نقصان ہوگا یوں ان کا نظامِ زندگی درہم برہم ہوکر رہ جاتا ہے ٭کسی کے گھر پراُلّو کی آواز سن لی تو اِعلان کردیا کہ اس گھر کا کوئی فرد مرنے والا ہے یا خاندان میں جھگڑا ہونے والاہے، جس کے نتیجے میں اس گھروالوں کے لئے مصیبت کھڑی ہوجاتی ہے ٭نیا ملازم اگر کاروباری ڈِیل نہ کرپائے اور آرڈر ہاتھ سے نکل جائے تو فیکٹری مالک اسے منحوس قرار دے کر نوکری سے نکال دیتا ہے ٭نئی دلہن کے ہاتھوں اگر کوئی چیز گِرکر ٹُوٹ پُھوٹ جائے تو اس کو منحوس سمجھاجاتاہے اور بات بات پر اس کی دل آزاری کی جاتی ہے۔
ماہِ صفر کو منحوس جاننا:
 بَدشگونی لینا عالَمی بیماری ہے، مختلف ممالک میں رہنے والے مختلف لوگ مختلف چیزوں سے ایسی ایسی بَدشگونیا ں لیتے ہیں کہ انسان سُن کر حیران رہ جاتا ہے۔ نُحوست کے وہمی تصورات کے شکارلوگ ماہِ صفرکو مصیبتوں اور آفتوں کے اُترنے کا مہینا سمجھتے ہیں خصوصاً اس کی ابتدائی تیرہ تاریخیں جنہیں ”تیرہ تیزی“ کہا جاتا ہے بہت منحوس تصوُّر کی جاتی ہیں۔ وہمی لوگوں کا  یہ ذہن بنا ہوتا ہے کہ صفر کے مہینے میں نیا کاروبار شروع نہیں کرناچا ہئے نقصان کا خطرہ ہے، سفرکرنے سے بچنا چاہئے ایکسیڈنٹ کا اندیشہ ہے، شادیاں نہ کریں، بچیوں کی رخصتی نہ کریں گھر برباد ہونے کا امکان ہے وغیرہ۔ میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! کوئی وَقْت بَرَکت والا اور عظمت و فضیلت والا تو ہوسکتا ہے جیسے ماہِ رمضان، ربیعُ الاوّل، جمعۃُ المبارک وغیرہ مگر کوئی مہینا یا دن منحوس نہیں ہوسکتا۔ نبیِّ کریم، رؤف رَّحیم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے صفرُ المظفر کے بارے میں وہمی خیالات کو باطِل قرار دیتے ہوئے فرمایا: ”لَا صَفَرَ“ صفر کچھ نہیں۔(بخاری،ج 4،ص 24، حدیث: 5707) حضرت علّامہ شاہ عبد الحق محدث ِدہلوی علیہ رحمۃ اللہ القَوی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں: عوام اسے (یعنی صفر کے مہینے کو) بلاؤں، حادثوں اور آفتوں کے نازل ہونے کا وَقْت قرار دیتے ہیں، یہ عقیدہ باطِل ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔(اشعۃ اللمعات (فارسی)،ج 3،ص664)
یہ مضمون مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ کتاب ”بدشگونی“ سے ماخوذ ہے، تفصیلات کیلئےیہ  کتاب مکمل  پڑھئے۔ یہ کتاب دعوت اسلامی کی ویب سائٹ www.dawateislami.net  سے ڈاؤنلوڈ اور پرنٹ آؤٹ بھی کی جاسکتی ہے۔