معاشرے کے ناسُور
کیا کوئی منحوس ہو سکتا ہے؟
(محمد آصف عطاری مدنی(1))
ایک بادشاہ اور اس کے ساتھی شکار کی غرض سے جنگل کی جانب چلے جارہے تھے۔ جونہی بادشاہ شہر کی فَصِیل (چار دیواری) کے قریب پہنچا اس کی نگاہ سامنے آتے ہوئے ایک آنکھ والے شخص پر پڑی جو راستے سے ہٹنے کے بجائے بڑی بے نیازی سے چلا آرہا تھا۔اسے سامنے آتا ہوا دیکھ کر بادشاہ غصے سے چیخا:” اُف! یہ تو بڑی بَدشگونی ہے، کیا اس منحوس کوپتا نہیں تھا کہ جب بادشاہ کی سواری گزررہی ہو تو راستہ چھوڑ دیا جاتا ہے۔“ بادشاہ سپاہیوں کی جانب مُڑا اور غصے سے چیخا:”اس ایک آنکھ والے شخص کو باندھ دیا جائے ،ہم واپسی پر اس کی سزا تجویز کریں گے۔“سپاہیوں نے اس شخص کو فوراً رسیوں سے باندھ دیا۔ بادشاہ کے خدشات کے برعکس اس روز شکار بڑا کامیاب رہا۔ وزیر نے جانوروں اور پرندوں کو گنتے ہوئے کہا:”واہ! آج تو آپ کا شکار بہت خوب رہا، کیا نگاہ تھی اور کیا نشانہ!“ جب شام ڈھلے بادشاہ شہر کے قریب پہنچا توا س شخص کو رسیوں میں جکڑا ہوا پایا۔بادشاہ کی سواری کے پیچھے پیچھے شکار کئے ہوئے جانوروں اور پرندوں سے بھری سواری بھی چلی آرہی تھی جسے دیکھ کر بادشاہ اور اس کے ساتھی خوشی سے پھولے نہ سَمارہے تھے۔ یہ دیکھ کر وہ شخص زور دار آواز میں بادشاہ سے مخاطب ہوا:کہیے بادشاہ سلامت! ہم دونوں میں سے کون منحوس ہے، میں یا آپ؟ یہ سنتے ہی سپاہی اس شخص کے سر پر تلوار تان کر کھڑے ہوگئے لیکن بادشاہ نے انہیں ہاتھ کے اشارے سے روک دیا۔ وہ شخص بلا خوف پھر مخاطب ہوا:کہیے بادشاہ سلامت! ہم میں سے کون منحوس ہے ”میں یا آپ؟“ میں نے آپ کو دیکھا تو رسیوں میں بندھ کر چِلچلاتی دھوپ میں دن بھر جلتا رہا جب کہ مجھے دیکھنے پرآپ کو آج خوب شکار ہاتھ آیا۔ یہ سن کر بادشاہ نادِم ہوا اور اس شخص کو فوراً آزاد کردیا اور بہت سا مال بھی دیا۔
کیا کوئی منحوس ہوسکتا ہے؟:
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اسلام میں کسی شخص، جگہ، چیز یا وَقْت کو منحوس جاننے کا کوئی تصوُّر نہیں یہ محض وہمی خیالات ہوتے ہیں۔ میرے آقااعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن بدشگونی کے بارے میں کئے گئے سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:شرعِ مطہر میں اس کی کچھ اصل نہیں، لوگوں کا وہم سامنے آتا ہے۔ شریعت میں حکم ہے: اِذَا تَطَیَّرْتُمْ فَامْضُوْا یعنی جب کوئی شگونِ بَدگمان میں آئے تو اس پر عمل نہ کرو۔ مسلمانوں کو ایسی جگہ چاہئے کہ ”اَللّٰہُمَّ لَاطَیْرَ اِلَّا طَیْرُکَ، وَلَا خَیْرَ اِلَّا خَیْرُکَ، وَلَا اِلٰہَ غَیْرُکَ“ (اے اﷲ!نہیں ہے کوئی بُرائی مگر تیری طرف سے اور نہیں ہے کوئی بھلائی مگر تیری طرف سے اور تیرے سِوا کوئی معبود نہیں)پڑھ لے اور اپنے رب (عَزَّوَجَلَّ) پر بھروسا کرکے اپنے کام کو چلا جائے، ہرگزنہ رُکے، نہ واپس آئے۔ وَاﷲُ تعالٰی اَعْلَمُ (فتاویٰ رضویہ،ج 29،ص641 ملخصاً)
شیطانی کام :
رسولِ اکرم، نُورِ مُجَسَّم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشادفرمایا: اَلْعِیَافَۃُ وَالطِّیَرَۃُ وَالطَّرْقُ مِنَ الْجِبْتِ یعنی اچھا یا بُراشگون لینے کے لئے پرندہ اُڑانا، بَدشگونی لینااور طَرْق (یعنی کنکر پھینک کر یا ریت میں لکیر کھینچ کر فال نکالنا) شیطانی کاموں میں سے ہے۔ (ابوداؤد،ج 4،ص22، حدیث: 3907)
بَدشگونی حرام اور نیک فال لینا مستحب ہے:
حضرت سیّدنا امام محمد آفندی بِرکلی علیہ رحمۃ اللہ الوَلی ”اَلطَّرِیْقَۃُ الْمُحَمَّدِیَۃ“ میں لکھتے ہیں: بَدشگونی لینا حرام اور نیک فال یا اچھا شگون لینا مُسْتَحَب ہے۔(طریقہ محمدیہ،ج2،ص17،24)
اچھے بُرے شگون کی مثالیں:
نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم اچھی فال کو پسند فرماتے تھے۔(مسنداحمد،ج 9،ص450، حدیث: 25036) اچھے شگون کی مثال یہ ہے کہ ہم کسی کام کوجارہے ہوں، کسی نے پکارا: ”یارَشِید (یعنی اے ہدایت یافتہ)“، ”یاسَعِید (یعنی اے سعادت مند)“، ”اے نیک بَخت“ ہم نے خیال کیا کہ اچھا نام سُنا ہے اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ کامیابی ہوگی جبکہ بَدشگونی کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص سفر کے اِرادے سے گھر سے نکلا لیکن راستے میں کالی بلی راستہ کاٹ کر گزر گئی ، اب اس شخص نے یہ یقین کرلیا کہ اس کی نُحوست کی وجہ سے مجھے سفر میں ضَرورکوئی نقصان اُٹھانا پڑے گا اور سفر کرنے سے رُک گیا تو سمجھ لیجئے کہ وہ شخص بَدشگونی میں مبتلا ہوگیا ہے۔
بَدشگونی کے بھیانک نتائج:
بَدشگونی کا شکار ہونے والوں کا اللہ عَزَّوَجَلَّ پر اِعتماد اور توکُّل کمزور ہوجاتاہے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بارے میں بَدگمانی پیداہوتی ہے ٭تقدیر پر ایمان کمزور ہونے لگتا ہے ٭شیطانی وَسْوَسوں کا دروازہ کھلتاہے ٭ بَدفالی سے آدمی کے اندر توہُّم پرستی، بُزدلی، ڈر اور خوف، پَست ہمتی اور تنگ دلی پیدا ہوجاتی ہے ٭ناکامی کی بہت سی وجوہات ہوسکتی
________________________________
1 - مدیر(Chief Editor)ماہنامہ فیضان مدینہ ،باب المدینہ کراچی