Brailvi Books

فیضان امام اہل سنت صفرالمظفر1440نومبر2018
15 - 70
لئے کثرت سے ذکر کرنا مناسب ہے کہ اب سے دونوں کی نئی زندگی کا آغاز ہو رہا ہے، اور اس کا آغاز اللہ و رسول عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بابرکت نام سے کرنا نیک فال ہے۔
اس کے علاوہ نکاح کے موقع پر کلمے پڑھنے کا ایک مقصد توبہ و تجدیدِ ایمان کرنا بھی ہوسکتا ہے۔ یہ خیال رہے کہ اگر دولہا کو کلمے یاد ہیں اور بھرے مجمع میں وہ پڑھ سکتا ہے تو پڑھ دے ورنہ بھری محفل میں اس کو شرمندگی سے بچانے کے لئے نکاح خواں اسے پڑھاتا جائے۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
            مُجِیْب				مُصَدِّق
محمد نوید چشتی	                                           ابوالصالح محمد قاسم القادری
 (4)مدرسہ کے بچّوں کا وقف کے قرآنِ پاک پر لکھنا
سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ مدرسہ میں دیئے گئے وقف کے قرآنِ پاک جب حفظ و ناظرہ کے لئے بچوں کو پڑھنے کے لئے دیئے جاتے ہیں تو بچے پہچان کے لئے قرآنِ پاک پر نام لکھ لیتے ہیں اور اغلاط یاد رکھنے کے لئے نشان بھی لگا لیتے ہیں تو وقف کے قرآنِ پاک میں ذاتی تصرف جائز ہے یا نہیں؟  
بِسْمِ اﷲالرَّحْمٰنِِ ا لرَّحِیْمِ
اَلْجَوابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
مدرسہ میں دیئے گئے وقف کے قرآنِ پاک پر نام نہ لکھا جائے، انتظامیہ کو چاہئے کہ وقف کے قرآنِ پاک کے تحفظ کیلئے اس پر خاص نمبر لکھ دے جس کا ریکارڈ اپنے پاس محفوظ کر لے تاکہ اسے بچوں کو دیتے وقت واضح طور پر معلوم ہو کہ کون سا قرآنِ پاک کس بچے کے حوالے کیا گیا ہے اور یوں بچوں کے استعمال شدہ کے درمیان فرق رہے اور وہ ایک دوسرے کا بھی استعمال نہ کریں اور وقف کی حفاظت بھی ہو۔ غلطیاں یاد رکھنے کے لئے نشان لگانا وقف میں ذاتی تصرف ہے جو کہ ناجائز ہے۔
البتہ اگر کسی کا ذاتی قرآنِ پاک ہے تو اُس پر نام بھی لکھ سکتے  ہیں اور غلطیاں یاد رکھنے کے لئے نشان لگانا بھی جائز ہے لیکن اس میں بھی یہ خیال رکھا جائے کہ بڑے بڑے نشان نہ لگائے جائیں بلکہ حروف اور حرکات کے علاوہ خالی جگہ پر ایسی پینسل سے چھوٹا سا نشان لگانا چاہئے کہ جس کے نشان کو مٹایا جاسکتا ہو تاکہ بعد میں ان نشانات کو ختم کیا جا سکے۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کتبـــــــــــــــــہ
ابوالصالح محمد قاسم القادری
(5)قرض لی جانے والی رقم کو موجودہ ویلیو پر لوٹانا؟
سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کوئی شخص کسی سے پندرہ بیس سال پہلے دس لاکھ روپے قرض لے اور اب واپس کرنا چاہتا ہے تو کیا شرعاً اس پر دس لاکھ ہی واپسی کرنا لازمی ہے یا پھر آج کی ویلیو کے حساب سے زیادہ رقم بنتی ہے کیونکہ بیس سال پہلے دس لاکھ کی ویلیو بہت زیادہ تھی مگر آجکل وہ ویلیو نہیں ہے؟ راہنمائی فرمادیں۔
بِسْمِ اﷲالرَّحْمٰنِِ ا لرَّحِیْمِ
اَلْجَوابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
حکمِ شرعی یہ ہے کہ جتنے روپے بطورِ قرض لئے تھے اتنے ہی واپس کرنا لازم ہیں اس سے زیادہ نہیں، ویلیو کم ہوگئی ہو یا زیادہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، لہٰذا بیس سال پہلے اگر دس لاکھ روپے قرض لئے تھے تو اب دس لاکھ روپے ہی واپس کرنا لازم ہیں، قرض دینے والے کا زیادہ مطالبہ کرنا جائز نہیں ہے اگرچہ بیس سال پہلے دس لاکھ کی ویلیو بہت زیادہ تھی۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
مُجِیْب				مُصَدِّق
ابو حذیفہ شفیق رضا عطاری مدنی			ابوالصالح محمد قاسم القادری