دار الافتاء اہلِسنّت
(Dar-ul-ifta Ahl-e-Sunnat)
(دار الافتاء اہلِسنّت(دعوتِ اسلامی)مسلمانوں کی شرعی راہنمائی میں مصروفِ عمل ہے، تحریری، زبانی، فون اور دیگر ذرائع سے ملک وبیرونِ ملک سے ہزار ہا مسلمان شرعی مسائل دریافت کرتے ہیں، جن میں سے پانچ منتخب فتاویٰ ذیل میں درج کئے جا رہے ہیں۔)
(1)صفر اور ربیعُ الاوّل کے مہینے میں تعمیرات کروانا؟
سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ صفر یا ربیعُ الاوّل کے مہینے میں تعمیرات کا کام کرواسکتے ہیں یا نہیں، بعض لوگ ان مہینوں میں کام کرنے کو نقصان دہ اور منحوس سمجھتے ہیں اس کی کیا حقیقت ہے؟
بِسْمِ اﷲالرَّحْمٰنِِ ا لرَّحِیْمِ
اَلْجَوابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
صفر یا ربیعُ الاوّل یا کسی اور مہینے میں تعمیرات یا دیگر کوئی بھی جائز کام کرسکتے ہیں شرعاً اس کی کوئی بھی ممانعت نہیں اور کسی کا ان مہینوں میں کام کرنے کو نقصان دہ اور منحوس سمجھنا غلط و بے اصل ہے اور ا یسی سوچ زمانۂ جاہلیت میں پائی جاتی تھی جس سے اسلام نے منع کردیا۔
نیز اس ماہ (یعنی صفرالمظفر) میں سرکار صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی طبیعت ناساز ہوئی تھی مگر اس وجہ سے اس ماہ کو منحوس نہیں کہہ سکتے کہ اگر ایسا ہو تو جس ماہ میں حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ظاہری وصال شریف ہوا وہ ماہ زیادہ منحوس قرار دینا پڑے گا جو کہ سراسر باطل ہے۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کتبـــــــــــــــــہ
ابوالصالح محمد قاسم القادری
(2)صفر کے مہینےمیں شادی کرنا کیسا؟
سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ کیا صفر کے مہینے میں شادی وغیرہ کرنا شریعت میں منع ہے؟
بِسْمِ اﷲالرَّحْمٰنِِ ا لرَّحِیْمِ
اَلْجَوابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
صفر کے مہینے میں نکاح کرنا بلاشبہ جائز ہے۔ بعض لوگ صفر کے مہینے میں اس اعتقاد کی بنا پر شادی نہیں کرتے کہ اس مہینے میں بلائیں وغیرہ اترتی ہیں اور یہ منحوس مہینا ہے۔ یہ اعتقاد محض باطل و مردود ہے جس کی کوئی اصل نہیں بلکہ زمانۂ جاہلیت میں لوگ اسے منحوس سمجھتے تھے تو سرکار صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس کو منحوس جاننے سے منع فرما دیا۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کتبـــــــــــــــــہ
ابوالصالح محمد قاسم القادری
(3)وقتِ نکاح دولہا، دلہن سے کلمے سُننا کیسا؟
سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ نکاح کے وقت کسی دولہا یا دلہن سے کلمے نہ سُنے جائیں یا دو تین سے زیادہ وہ کلمے نہ سُنا سکے تو نکاح میں کوئی فرق پڑے گا یا نہیں؟ وضاحت فرما دیں۔
بِسْمِ اﷲالرَّحْمٰنِِ ا لرَّحِیْمِ
اَلْجَوابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
نکاح میں کلمے پڑھنا لازم یا شرط نہیں ہے یعنی یہ سمجھنا کہ اگر کلمے نہیں پڑھیں گے تو نکاح منعقد ہی نہ ہوگا، یہ شرعاً درست نہیں، کیونکہ دو مسلمانوں کا نکاح گواہوں (دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں) کی موجودگی میں ایجاب و قبول کرنے سے ہو جاتا ہے، اس میں کلمے پڑھنا شرط نہیں۔ البتہ نکاح کے وقت کلمے پڑھنا مستحسن عمل ہے کہ ان کلمات میں اللہ و رسول عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ذکر ہے، اور ان کا ذکر نزولِ برکات کا سبب، خصوصاً اس اہم موقع پر ویسے ہی حصولِ برکت و سلامتی کے