Brailvi Books

فیضانِ مدینہربیع الاول ۱۴40ھ نومبر/دسمبر 2018ء
8 - 59
حدیث شریف اور اس کی شرح
سب سے اولٰی واعلیٰ ہمارا نبی
(مفتی ہاشم خان عطاری مدنی)
 حضرتِ سیّدُنا عباس بن عبدُالمطّلبرضی اللہ تعالٰی عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے عرض کی: یارسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! قریش بیٹھے ایک دوسرے کے حَسَب نَسَب پر گفتگو کر رہے ہیں  اور انہوں نے آپ کے نسب پر طعن کیا ہے۔ تو حُضُورِ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: إِنَّ اللَّہَ خَلَقَ الْخَلْقَ فَجَعَلَنِی مِنْ خَیْرِہِمْ مِنْ خَیْرِ فِرَقِہِمْ وَخَیْرِ الْفَرِیقَیْنِ، ثُمَّ تَخَیَّرَ الْقَبَائِلَ فَجَعَلَنِی مِنْ خَیْرِ قَبِیْلَۃٍ ثُمَّ تَخَیَّرَ الْبُیُوتَ فَجَعَلَنِی مِنْ خَیْرِ بُیُوتِہِمْ، فَأَنَا خَیْرُہُمْ نَفْسًا، وَخَیْرُہُمْ بَیْتًا یعنی اللہ تعالیٰ نے مخلوق بنائی تومجھے اس کے دوحصّوں میں سے بہتر حصّے میں رکھا ، پھر قبیلے بنائے تو مجھے بہتر قبیلے میں رکھا ، پھر گھر اور خاندان بنائے تو مجھے بہتر خاندان میں پیدا کیا ،چنانچہ میں ساری مخلوق سے بہتر ہوں اور میرا خاندان بھی سب خاندانوں سے بہترہے۔
(ترمذی،ج5،ص350، حدیث:3627) 
شرحِ حدیث علّامہ حسین بن محمود شیرازی مُظْہِرِِی حنفی علیہ رحمۃ اللہ القَوی (سالِ وفات727ھ) اس حدیثِ پاک کی شَرْح میں فرماتے ہیں: یعنی اللہ تعالیٰ نے مخلوق بناکر اس کے دو حصّے کئے: ایک عرب اور دوسرا عَجم، پھر مجھے بہتر حصّے یعنی عَرَب میں پیدا فرمایاپھر عَرَب کو مختلف قبیلوں میں بانٹا تو مجھے بہترین قبیلے یعنی قُریش میں رکھا ، پھر قبیلوں میں خاندان بنائے تو مجھے بہتر خاندان یعنی بنو ہاشم میں پیدا فرمایا ،سو میرا قبیلہ تمہارے قبیلوں سے بہتر ہے اورمیرا خاندان تمہارے خاندانوں سے بہتر ہے اور جب یہ بات ذِہْن نشین ہو گئی تو جان لو کہ میں خود بھی تمام مخلوقِ الٰہی سے افضل ہوں اور میرا خاندان بھی سب خاندانوں سے بہترہے۔
خلاصۂ  کلام یہ ہے کہ حُضُورِاکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاکیزہ وُجود اور روشن نبوی صِفات کو بنظرِ عنایت حضرتِ آدم علیہ السَّلام کی مبارَک پُشْت میں محفوظ رکھا گیا ، اس وجود ِمسعود کو جوہر ِمَحبت سے غذا دی گئی ، حضرتِ آدم علیہ السَّلام اوران کی اولاد نے آپ سے شرف پایا اور پھر اللہ تعالیٰ  نے اس پاکیزہ (نوری) وجود کو پُشْت دَرْ پُشْت نُزول کا حکم دیا حتّٰی کہ یہ مبارَک وجود بنو ہاشم تک پہنچ گیا،پس فضیلت اور شرافت کے اعتِبار سے نبیِّ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا مقام و مرتبہ ساری مخلوق میں وہی ہے جوتمام اَعْضا میں دل کا ہے۔ (المفاتیح فی شرح المصابیح،ج6،ص102،تحت الحدیث:4478) 
3 فرامینِ مصطفٰے صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم (1)تین وجوہ کی بنا پر عَرَب سے محبت کرو کہ میں عربی ہوں، قرآن مجید عربی میں ہے اور اہلِ جنّت کا کلام عربی ہے۔(برکات آلِ رسول،  ص235،236) (2)اللہ تعالیٰ  نے قریش کو ایسی سات صفات میں فضیلت دی ہے جو ان سے پہلے کسی کو دیں نہ بعد میں:  (۱) میں قریش میں سے ہوں (۲)نبوّت (آخری نبی ) ان میں ہے (۳)بیتُ اللہ شریف کی دربانی ان میں ہے (۴)حاجیوں کو پانی پلانا ان میں ہے (۵)اللہ تعالیٰ  نے ہاتھیوں کے مقابلے میں ان کی مدد فرمائی (۶)انھوں نے دس10 سال اللہ تعالیٰ  کی عبادت کی ، اس وَقْت ان کے سوا کوئی عبادت کرنے والا نہیں تھا (۷)ان کے حق میں سورۂ قریش نازل ہوئی ، جس میں ان کے سوا کسی کا ذکر نہیں۔ (برکات آل رسول، ص233،234) (3)مجھے جبریلِ امین نے کہا : میں نے زمین کے شرق و غرب چھان ڈالے مگر مجھے بنی ہاشم سے زیادہ فضیلت والے کسی باپ کے بیٹے نہیں ملے۔ (برکات آل رسول، ص91) 
سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبی مذکورہ حدیثِ پاک سے معلوم ہوا کہ ہمارے نبیِّ محترم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سب نبیوں اور رسولوں سے افضل و اعلیٰ ہیں کہ آپ خود ارشاد  فرما رہے ہیں : میں خود ساری مخلوق سے بہتر و بَرتَر ہوں۔ ترمذی شریف میں ہے کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: میں تمام اولادِآدم کا سردار ہوں۔ (ترمذی ،ج 5،ص99، حدیث:3159 ) امامِ اہلِ سنّت شاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن اپنے رسالہ مبارَکہ” تَجَلِّی الْیَقِیْن“(فتاوی رضویہ، جلد 30 صفحہ 129 تا 264) میں اس پر تفصیلی کلام فرمایا ہے۔
رحمتِ عالَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے آباء واجدادکے ایمان پر ایک استدلال
علامہ زینُ الدّین محمد معروف بہ عبدُ الرَّءوف مُناوی علیہ رحمۃ اللہ الکافی (سالِ وفات: 1031ھ) مذکورہ حدیثِ پاک کے  تحت فرماتے ہیں : ”یعنی حضور ِاکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنی اصل (ماں باپ) کے لحاظ سے بھی سب سے بہترہیں کیوں کہ آپ پُشت دَر پُشت پاک صُلبوں اور رحموں میں (نکاح کے ذریعے) منتقل ہوتے رہے یہاں تک کہ حضرت عبد اللہ کی پُشت میں پہنچے۔“(فیض القدیر،ج2،ص294،تحت الحدیث:1735)معلوم ہوا کہ نبیِّ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سب آباء و اجداد مؤمن و مُوَحِّد تھے، ا ن میں کوئی بھی کافر و مشرک نہیں تھا کیونکہ بحکم ِقراٰن مشرکین نہ تو پاک ہیں اور نہ ہی مؤمنین سے بہتر حالانکہ مذکورہ حدیثِ پاک کی رُو سے نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ و سلَّم کے سب آباء و اجداد کا پاک اور سب سے بہتر ہونا معلوم ہوتا ہے۔