Brailvi Books

فیضانِ مدینہربیع الاول ۱۴40ھ نومبر/دسمبر 2018ء
38 - 59
بزرگوں کے پیشے
حضرت سیدنا حسان بن ابو سنان کا تعارف اور ان کا پیشہ
(ابو صفوان عطاری مدنی)
حضرتِ سیّدُنا ابوعبداللہحَسّان بن ابو سِنان علیہ رحمۃ الحنَّان عبادت گزار،متقی و پرہیز گار،دنیا سے بے رغبت اورحضرتِ سیّدُنا حَسَن بَصری علیہ رحمۃ اللہ القَویکے صُحبت یافتہ ،تابِعی بُزُرگ تھے۔آپ 60 ہجری میں پیداہوئے اورصَحابیِ رسول حضرتِ اَنَس بن مالِکرضی اللہ عنہکی زیارت کا شرف پایا۔ (تاریخ الاسلام للذہبی،ج3،ص395،البدایہ والنھایہ ،ج7،ص166)تقویٰ و پرہیزگاری اختِیار کرنا آپ کے لئے آسان  کردیا گیاتھا ،چنانچہ خود ارشاد فرماتے ہیں: مجھ پر پرہیزگاری سے زیادہ کوئی چیز آسان نہیں،  مجھے جب بھی کسی چیز کے بارے میں شک ہوتا ہے تو میں اسے چھوڑدیتا ہوں۔ (حلیۃ الاولیاء،ج3،ص26، رقم3022) 
عراق کے ابدال جَعْفر بن سُلیمان کابیان ہےکہ میں نے حضرتِ سیِّدُنا وَہْب بن مُنَبِّہرحمۃ اللہ تعالٰی علیہکے ایک ہم نشین کویہ کہتےسناکہ مجھےخواب میںرسولُ اللہ  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زیارت کاشرف حاصل ہوا،میں نےعرض کی: یارسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!آپ کی اُمَّت کے اَبدال کہاں ہیں؟ آپ نے دسْتِ اَنور سے شام کی جانب اشارہ فرمایا۔ میں نے عرض کی: ان میں سے کوئی عراق میں بھی ہے ؟ارشاد فرمایا:ہاں!محمدبن واسِع، حَسّان بن ابوسِنان اور مالِک بن دینار (رضوان اللہ تعالٰی علیہم اَجْمعین)۔
(تہذیب الکمال فی اسماء الرجال،ج 2،ص501)
ذریعۂ آمدن آپ تاجرتھے اور اپنے تجارت کرنے کی وجہ  بیان کرتے ہوئے فرماتےتھے: لَوْلَا الْمَسَاكِيْنُ مَا اتَّجَرْتُ یعنی اگر مساکین نہ ہوتے تو میں تجارت ہی نہ کرتا۔(تہذیب الکمال فی اسماء الرجال،ج2،ص501)
دکان میں  پردہ لٹکا کر نماز آپ اپنی دکان کھول کردوات رکھتے، حساب کتاب کے کاغذپھیلاتے اور پردہ لٹکا کر نَماز شُروع کردیتے، جب کسی کے آنے کی آہٹ محسوس کرتے تو حساب کتاب میں مشغول ہوجاتے، آنے والے کو ایسا لگتا کہ آپ  حساب کتاب میں مصروف تھے۔(حلیۃ الاولیاء،ج3،ص137،رقم:3458)
تنگ دست کے ساتھ مالی تعاون ایک مرتبہ کچھ لوگ آپ کے پاس  ایک شخص کو لے کر اس کی  مالی مدد کروانے کے ارادے سے حاضِرہوئے، وہ شخص پہلے  مالی لحاظ سے  خوشحال تھا پھر تنگ دست ہوگیا تھاتاہم لوگوں نے جب آپ کو پریشان دیکھا تو آپس کے مشورے سےواپس جانے لگے۔ آپ نےانہیں جاتےدیکھ کر پوچھا: آپ لوگوں کو کوئی حاجت ہے؟انہوں نے عرض کی: اے ابو عبد اللہ! ہم پھر حاضِر ہوجائیں گے۔آپ نے فرمایا: نہیں! اپنےآنے کامقصد بیان کرو۔چنا نچہ لوگوں نے عرض کی:یہ فلاں شخص ہے، آپ اسے جانتے ہیں،یہ پہلے مال دارتھالیکن اب تنگ دست ہوگیا ہے، ہم نے سوچا کہ اس  کو کچھ رقم جمع کرکے دے دیں۔آپ نے فرمایا: ٹھہرو!چنا نچہ آپ گھرگئے اور 400 درہم سے بھری تھیلی لے کرآئے اور فرمایا:ابھی  میرے پاس یہی ہے۔پھر اپنے  غمگین ہونے کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے گھروالوں کے لئے ایک کمرہ بنوایا ہےجس پر تقریباً27درہم خرچ ہوئے ہیں، اگرچہ  وہ ہمارے لئے فائدہ مند ہےلیکن اگرہم اسے نہ بنا تے تب بھی گزاراہوجاتا،میری پر یشانی کی یہی وجہ ہے۔(حلیۃ الاولیاء ،ج3،ص 139، رقم:3468)
 کہیں گناہ نہ کر بیٹھےایک مرتبہ ایک عورت نےآکر آپ سے سوال کیا،آپ نے اپنے شراکت دار (Partner) کوشہادت اور درمیان کی انگلی سے دو کااشارہ کیاتو وہ دودرہم لے آیا،آپ نے فرمایا:اسے 200درہم دے دو۔ (اس کے جانے کے بعد)لوگوں نےعرض کی:اےابو عبداللہ! وہ تو کم پر بھی راضی تھی۔آپ نےفرمایا: میں نے ایسی بات کا مشاہدہ کیاجس تک تمہاراخیال نہیں گیا، وہ یہ کہ ابھی یہ جوان ہےاور مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں اس کی حاجت اسے کسی ناپسندیدہ کام(یعنی گنا ہ)پرمجبورنہ کردے۔(حلیۃ الاولیاء،ج3،ص 138، رقم:3463)
ادھار لے کر صدقہ کیاحضرتِ سیِّدُنا اِبْنِ شَوْذَب رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ بیان کرتے ہیں کہ حضرتِ سیِّدُنا حَسّان بن ابوسِنان  علیہ رحمۃ الحنَّان بصرہ کے تاجروں میں سےتھے لیکن اَہْوَاز (ایران کےشہر )میں رہائش پذیر تھے۔ بصرہ میں ایک شخص آپ کا شراکت دار (Partner)تھا،آپ بصرہ میں اسے سامانِ تجارت مہیا کرتے اور سال کے اختِتام پر دونوں جمع ہوکرمنا فع تقسیم کرلیتےپھر  اپنے حصّے کی رقم سے گزربسرکے لئے نکال کربقیہ رقم صدقہ کردیتے۔ایک مرتبہ آپ بصرہ تشریف لے گئے،جتنی رقم صدقہ کرنے کا ارادہ تھاآپ نے اتنی رقم صدقہ کردی، بعد میں کسی نے بتایا کہ فلاں گھرانے