ام معبد رضی اللہ تعالٰی عنہا اور حلیہ مصطفےٰ
(اویس یامین عطاری مدنی)
کتبِ احادیث و سِیَر میں جن صَحابہ وصحابیات علیہمُ الرَّضوان نے نبیِّ رَحْمت، شفیعِ ا مّت صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حسن و جمال اور حلیۂ مبارک کو بیان فرمایا ہے، ان میں ایک نام حضرتِ سیّدَتُنا اُمِّ مَعْبد رضی اللہ تعالٰی عنہا کا بھی ہے ۔ اُمِّ مَعبد رضی اللہ تعالٰی عنہا کا نام عاتِکہ بنتِ خالد خُزاعِیہ ہے مگر اپنی کنیت سے مشہور ہیں۔ آپ ایک مہمان نواز خاتون تھیں جو قُدید کے مقام پر ایک خیمے میں اپنی زندَگی گزر بسر کرنے کے ساتھ ساتھ قُدید سے گزرنے والے مسافروں کی میزبانی نہایت خوشدلی کے ساتھ کیا کرتی تھیں۔آقا کی آمد مرحبا! ہمارے پیارے آقا، مکّی مَدَنی مصطَفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اللہ پاک کے حکم سے جب مکّۂ مکرّمہ سے مدینۂ منوّرہ کی طرف ہجرت فرمائی تو راستے میں ان کے خیمے کے پاس سے گزرے، ان کے شوہر ابو مَعبد اَکْثَم بن الجَون بکریاں چَرانے گئے ہوئے تھے، گھر میں صرف ایک نہایت کمزور بکری تھی جو کمزوری کے باعث ریوڑ کے ساتھ نہ جاسکی۔ نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اُمِّ معبد سے اس بکری کا دُودھ دوہنے کی اجازت لی، پھربکری کے تھن پر اپنا مبارَک ہاتھ پھیرا، دُعا کی: الٰہی ان کی بکری میں برکت عطا فرما اور اللہ کا نام لے کر دودھ دوہنا شُروع کیا۔ سرکارِ دوعالَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مبارَک ہاتھوں کی برکت سے اُس بکری کے خشک تھنوں میں اِتنا دودھ اُتر آیا کہ وہاں موجود تمام لوگ سیر ہو گئے۔ رَحْمتِ عالَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دوبارہ دودھ دوہا اور دودھ سے بھرا برتن ان کے پاس چھوڑ کر آگے بڑھ گئے۔ حُلیۂ مصطَفٰے مرحبامرحبا! اُمِّ مَعْبد کے شوہر بکریاں چرانے کے بعد گھر واپس آئے تو گھر میں دودھ سے لبالب برتن دیکھ کر حیرت زدہ ہوگئے اور پوچھا کہ یہ دودھ کہاں سے آیا ہے؟ اُمِّ معبد نے سارا واقعہ سُنا دیا۔ ابو معبد نے کہا: یہ تو وہی قریشی شخص معلوم ہوتے ہیں جنہیں قریش تلاش کر رہے ہیں۔ ذرا ان کا حلیہ تو بتاؤ؟ اُمِّ مَعبد نے رسولِ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا حلیۂ مبارَکہ یوں بیان کیا: ان کا حُسن نمایاں، چہرہ حسین، قد و قامت خوبصورت، نہ بڑے پیٹ کا عیب، نہ چھوٹے سَر کا نقص، اِنتہائی خوبصورت، خوبرو آنکھیں، سیاہ اور بڑی پلکیں، گونج دار آواز، گردن بلند، داڑھی مبارک گھنی، باریک اور باہم ملی ہوئی ابرو، خاموش رہیں تو باوقار، لب کشا ہوں تو چہرہ پُر بہار و وقار، سب سے بڑھ کر باجمال، دور و نزدیک سے حسین و جمیل، شیریں زَباں، گفتگو صاف اور واضح، نہ بے فائدہ اور نہ بے ہودہ، مبارَک مُنہ سے الفاظ ادا ہوں تو گویا موتی جھڑیں، درمیانہ قد، نہ لمبا کہ دراز قامتی بُری لگے، نہ پست کہ آنکھوں میں حقارت پیدا ہو، دو سَر سبز و شاداب شاخوں کے درمیان لچکتی ہوئی شاخ جو حسین منظر اور عالی قدر ہو، اس کے خُدّام و رُفقا حلقہ بستہ، اگر لب کشا ہو تو وہ غور سے سُنیں اور اگر حکم دے تو تعمیل کے لئے دوڑیں، قابلِ رشک، قابلِ احتِرام، نہ تلخ رُو، نہ زیادتی کرنے والا۔میاں بیوی مسلمان ہوگئے حلیۂ مبارَکہ سُن کر ابومعبد بے ساختہ بول اُٹھے:خُدا کی قسم! تم نے جن کا حلیہ بیان کیا یہ تو وہی شخصیت ہے جن کا ذکر میں نے مکّہ میں سُنا ہے۔ میں نے اُن کی صُحْبت اختِیِار کرنے کا ارادہ کر لیا ہے اور اگر میں نے اُن تک پہنچنے کی راہ پائی تو میں ضَرور ایسا کروں گا۔ پھر دونوں میاں بیوی نے مدینۂ منورہ کی طرف ہجرت کی اور مسلمان ہوگئے۔
(معجمِ کبیر،ج 4،ص48 تا 49، حدیث: 3605 ماخوذاً، مستدرک للحاکم،ج 3،ص554،552، حدیث:4333 ماخوذاً، زرقانی علی المواہب ،ج 2،ص130تا 134 ماخوذاً، طبقات ابن سعد،ج 1،ص178 ماخوذاً، دلائل النبوۃ للبیہقی،ج 1،ص278تا280 ماخوذاً)
حُسن تیرا سا نہ دیکھا نہ سُنا
کہتے ہیں اگلے زمانے والے
(حدائقِ بخشش، ص 161)
پیارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی برکت رَحْمتِ عالَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی برکت سے حضرتِ سَیِّدَتُنا اُمِّ مَعْبد رضی اللہ تعالٰی عنہا کے نصیب جاگ اٹھے، خودفرماتی ہیں: جس بکری کے تھنوں کو نبیوں کے سَردار، دو جہاں کے تاجدار صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مَس(Touch) کیا تھا، وہ عرصۂ دراز تک ہمارے پاس رہی حتّٰی کہ 18ہجری میں حضرتِ سَیِّدُنا عُمَر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زمانے میں جب قحط پڑ گیا اور خشک سالی کی کوئی حد نہ رہی (جسے عَامُ الرّمادہ کہتے ہیں) تو (ان حالات میں بھی) ہم صُبح و شام اس بکری کا دودھ دوہتے رہے۔(طبقات ابن سعد،ج 8،ص225 ماخوذاً) ازواجِ مطہرات کا اُمِّ مَعبد کے ساتھ حسنِ سلوک ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالٰی عنہن اُمِّ معبد رضی اللہ تعالٰی عنہا کے ساتھ حُسْنِ سلوک فرماتیں اور ان کی عزت کیا کرتی تھیں، چنانچہ اُمِّ معبد رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں: حضرتِ عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خلافت میں ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالٰی عنہنَّ حج کے لئے تشریف لے جاتے ہوئے مقامِ قُدید پہنچیں تو انہیں دیکھ کر میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے، میں نے ان سے عرض کی، مجھے رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم یاد آگئے کہ وہ اس جگہ قِیام فرما ہوئے تھے، یہ سُن کر سب رونے لگیں، انہوں نے مجھے بہت عزّت دی، میری قدر کی، میرے ساتھ حُسنِ سلوک سے پیش آئیں او رمجھ سے کہا کہ جب امیر المؤمنین ہمیں ضَروری اخراجات دیں گے تو ہمارے پاس ضَرو رآنا، میں اس موقع پرگئی تو ہر ایک نے مجھے پچاس دینار دیئے، اس وقت ازواجِ مطہرات کی تعداد سات تھی۔
(طبقات ابن سعد،ج 8،ص169 ماخوذاً، انساب الاشراف،ج 2،ص104 ماخوذاً)
اللہ پاک کی ان پر رَحْمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…ماہنامہ فیضان مدینہ باب المدینہ کراچی