Brailvi Books

فیضانِ مدینہربیع الاول ۱۴40ھ نومبر/دسمبر 2018ء
30 - 59
شجاعت مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زندگی مبارَکہ  کا ہر گوشہ ہر طرح سے کامل و اکمل ہے جس طرح علم وحلم، عَفْو و دَرگزر، زہد و تقویٰ، عدل و انصاف وغیرہ میں آپ کا کوئی ثانی نہیں اسی طرح شجاعت و بہادری میں بھی آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  اپنی مثال نہیں رکھتے ۔ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شجاعت کا باب بھی ایک بحرِِزخّار (نہایت وسیع وعریض سمندر)ہے جس کے بیان کے لئے  دفتر درکار ہے۔ یہاں آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شجاعت کے چند گوشوں کا ذکر ملاحظہ ہو:غزوات میں آپ کی شجاعت: غزوۂ احد: حضرت سیّدنا مِقْداد بن عَمْرو رضی اللہ تعالٰی عنہما غزوۂ احد کی داستان بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: مشرکین نے قتل و غارت کرکے ہمیں نقصان پہنچایا مگر آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنی جگہ پر ثابت قدم رہے آپ ایک قدم بھی پیچھے نہ ہٹے بلکہ دشمن کے سامنے کھڑے اپنی کمان سے تیر برسا  تے رہے۔ ایک بار آپ کے صَحابہ کا ایک گروہ آپ کی طرف آتا۔ دوسری بار (دشمن کے شدید حملہ کی جہ سے )آپ سے دور رہ جاتا۔  میں نے جب بھی آپ کو دیکھا آپ اپنی جگہ  پر  شجاعت کے ساتھ اپنی کمان سے کفّار پر تیر برسا رہے تھے۔ حتّٰی کہ مشرکین پیچھے ہٹ گئے۔(سبل الہدیٰ والرشاد،ج4،ص197) منقول ہے کہ جنگِ اُحُد میں آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس ایک تلوار تھی جس پر یہ شعر لکھا تھا:
في الجبن عار وفي الإقبال مكرمة		والمرء بالجبن لا ينجو من القدر
یعنی  بزدلی میں عار (عیب) ہے اور بڑھنے  میں بزرگی ، آدمی   بزدلی  سے قضا و قدر(تقدیر) سے نہیں بچ سکتا۔(سیرتِ حلبیہ،ج2،ص303)
غزوۂ حنین: صَحابہ کرام علیہمُ الرِّضوان  کا بیان ہے کہ جنگِ حنین میں بارہ ہزار مسلمانوں کا لشکر کفّار کے حملوں کی تاب نہ لا کر  پسپا ہو گیا تھا اور کفّار کی طرف سے لگاتار تیروں کی بارش ہورہی تھی۔ اس وقت رسول اﷲ  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹے۔آپ  ایک سفید خچر پر سوار تھے اور حضرتِ سیّدنا ابو سفیان بن حارث رضی اﷲ تعالیٰ  عنہ خچر کی لگام پکڑے ہوئے تھے۔آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم اکیلے ہی  لشکروں کے ہجوم کی طرف بڑھتے چلے جا رہے تھے  اور یہ کلمات زبانِ اقدس پر جاری تھے:
اَنَا النَّبِيُّ لَا کَذِبْ	اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ
میں نبی ہوں یہ جھوٹ نہیں ہے، میں عبدالمطّلب کا بیٹا ہوں۔ (بخاری ،ج3،ص111،حدیث:4317،سیرتِ مصطفیٰ،ص620،زرقانی،ج3،ص517)  جب کافر بہت نزدیک آگئے تو آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سواری سے اتر کر مٹّھی بھر خاک ان پر پھینک کر فرمایا: ”شَاهَتِ الْوُجُوهُ“ (یعنی کفّار کے چہرے بگڑیں) سب کی آنکھوں میں  مٹّی پہنچی اور  کفّار پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے۔ ( مسلم،ص758حدیث:4619) غزوۂ بدر: حضرتِ سیِّدُنا علی رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں: غزوۂ بدر کے دن ہم نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پناہ میں اپنا بچاؤ کرتے تھے۔ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہم سب سے زیادہ دشمن کے قریب ہوتے تھے۔ اس دن آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم لڑائی میں سب سے زیادہ مضبوط اور طاقتور تھے۔ (شرح السنۃ،ج7،ص47،حدیث:3592) پہلوانوں کو پچھاڑنے کے واقعات رُکَانہ کو پچھاڑنے کا واقعہ: عَرَب کا مشہورپہلوان رُکَانہ سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سامنے سے گزرا آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس کو اسلام کی دعوت دی وہ کہنے لگا کہ اے محمد!  اگر آپ مجھ سے کشتی لڑ کر مجھے پچھاڑ دیں تو میں آپ کی دعوتِ اسلام کو قبول کر لوں گا۔ حضور نبیِّ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم تیار ہو گئے اور اس سے کشتی لڑ کر اس کو پچھاڑ دیا، پھر اس نے دوبارہ کشتی لڑنے کی دعوت دی آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دوسری مرتبہ بھی اپنی پیغمبرانہ طاقت سے اس کو اس زور کے ساتھ زمین پر پٹک دیا کہ وہ دیرتک اٹھ نہ سکا اور حیران ہو کر کہنے لگا کہ اے محمد   خُداکی قسم! آپ کی عجیب شان ہے کہ آج تک عرب کاکوئی پہلوان میری پیٹھ زمین پر نہیں لگا سکا مگر آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دم زدن(یعنی فوراََ) میں مجھے دو مرتبہ زمین پر پچھاڑ دیا۔(زرقانی،ج6،ص101) ابوالاسود پہلوان کو پچھاڑنے کا واقعہ: ابو الاسودجُمَحی اتنا بڑا طاقتور پہلوان تھا کہ وہ ایک چمڑے پر بیٹھ جاتا تھا اور دس پہلوان اس چمڑے کو کھینچتے تھے تا کہ وہ چمڑا اس کے نیچے سے نکل جائے مگر وہ چمڑا پھٹ پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جانے کے باوجود اس کے نیچے سے نکل نہیں پاتا تھا۔ اس نے بھی بارگاہِ اقدس میں آکر یہ چیلنج دیا کہ اگر آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم مجھے کشتی میں پچھاڑ دیں تو میں مسلمان ہو جاؤں گا۔ حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  اس سے کشتی لڑنے کے لئے کھڑے ہو گئے اور اس کا ہاتھ پکڑتے ہی اس کو زمین پر پچھاڑ دیا۔ وہ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اس طاقتِ نبوّت سے حیران ہو کر فوراً ہی مسلمان ہو گیا۔ (زرقانی،ج6،ص103) یزید بن رُکَانہ کو پچھاڑنے کا واقعہ: رکانہ کا بیٹا یزید بن رُکَانہ بھی مانا ہوا پہلوان تھا یہ تین سو بکریاں لے کر بارگاہ نُبُوّت میں حاضر ہوا اور کہا کہ اے محمد!   آپ مجھ سے کشتی لڑیئے۔ آپ تیار ہو گئے اور اس سے ہاتھ ملاتے ہی اس کو زمین پر پٹک دیا۔ پھر دوبارہ اس نے کشتی لڑنے کے لئے چیلنج دیا آپ نے دوسری مرتبہ بھی اس کی پیٹھ زمین پر لگا دی۔ پھرتیسری بار اس نے کشتی کے لئے للکارا آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس کا چیلنج قبول فرما لیا اور کشتی لڑ کر اِس زورکے ساتھ اس کو زمین پر دے مارا کہ وہ چِت ہو گیا۔ کہنے لگا کہ اے محمد! سارا عرب گواہ ہے کہ آج تک کوئی پہلوان مجھ پر غالب نہیں آسکا، مگر آپ نے تین بار جس طرح مجھے کشتی میں پچھاڑا ہے اس سے میرا دل مان گیا کہ یقیناً آپ   اللہ کے نبی ہیں، یہ کہا اورکلمہ پڑھ کر دامنِ اسلام میں آ گیا۔(زرقانی،ج6،ص103)
جس کو بارِ دو عالم کی پروا نہیں 		ایسے بازو کی قوت پہ لاکھوں سلام
(حدائقِ بخشش،ص303)