جان ہے عشقِ مصطفےٰ
(آصف اقبال عطاری مدنی)
محبت و عشق دل اگر کسی کی جانب مائل ہوجائے تو اسے”مَحبّت“ کہا جاتا ہے اور یہی محبت اگر شدّت اختِیار کرلےتو ”عشق“ کہلاتی ہے۔ عشق دو طرح کا ہوتا ہے ،مجازی(یعنی انسانوں کا انسانوں سے عشق) اور حقیقی( یعنی محبتِ خداومصطفٰی عَزَّ وَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم )۔عشق مجازی اکثرراہ ِدوزخ پر لے جاتاجبکہ عشق حقیقی شاہراہ جنّت پر گامزن کرتا ہے ،عشق مجازی تباہ وبرباد کرتا ہے اور عشق حقیقی شاد وآباد کرتا ہے۔ عشق حقیقی میں بڑی قوت ہوتی ہے ،یہ کبھی سَخْت طوفان کا سامنا کرتا، کبھی فرعون کا مقابلہ کرتا،کبھی حکم ِالٰہی پرقربانی کے لئےسَر رکھ دیتا اور کبھی بے خطر آگ میں کود پڑتا ہے جبکہ عقل تکت ی رہ جاتی ہے۔
بے خطرکُود پڑا آتشِ نَمرود میں عشق عقل ہے محوِ تماشائے لب بام ابھی
عشقِ حقیقی کے ثمرات:عشقِ حقیقی سے مراداللہ و رسول عَزَّ وَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی محبتِ کامل ہے ،یہ دولت بے بہا جس کے خزانۂ دل میں جمع ہوجاتی ہے اُسے فانی کائنات سے بیگانہ کردیتی ہے ،وہ ہَمَہ وقت محبوب کے تصوروجلوؤں میں گم رہتا ہے اور محبت ومعرفت کی لذّت میں کھو کردنیا سے کنارہ کش ہوجاتا ہے،پھر وہ محبوب کی سنتا ،محبوب کی مانتا اور اُسی کی چاہت پر چلتا ہے حتَّی کہ محبوب کے نام پر جان تک قربان کردیتا ہے۔
ایمانِ کامل کی بنیاد:عشقِ الٰہی کے بعد سب سے بڑی نعمت عشق ِرسولہے اور حقیقت یہ ہے کہ عشق رسول کے بغیر بندۂ مومن کا گزارا ہوہی نہیں سکتا۔مومن تبھی کامل مومن ہوتا ہے جب وہ ساری کائنات سے بڑھ کر سرورِ کائنات صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے محبت کرے، خود اپنی زَبانِ حق ترجمان سے ارشاد فرمادیا:تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اسے والدین، اولاد، گھروالوں،تمام لوگوں ،اپنی جان اورمال سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔( مسلم،ص47،حدیث:168، 169۔سنن الکبری للنسائی،ج 6،ص534، حدیث:11744)
عشقِ رسول کے فوائد:یہ محبت شدّت اختِیار کرنے پرعشقِ رسول کا روپ دھار لیتی ہے اور کامل ہونے پرعشقِ رسول کیا کرتا ہے؟ حضرت مولانا صوفی محمد اکرم رضوی علیہ رحمۃ اللہ القَویکی زبانی سنیئے:عشقِ رسول صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم اگر پورے طورپر دل میں جاگزیں ہوتو اتّباعِ رسول صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ظہور ناگزیر بن جاتا ہے، احکامِ الٰہی کی تعمیل اور سیرتِ نبوی کی پیروی عاشق کے رگ و ریشہ میں سماجاتی ہے، دل و دماغ اور جسم و روح پر کتاب و سنّت کی حکومت قائم ہوجاتی ہے، مسلمان کی مُعاشرت سنور جاتی ہے، آخِرت نکھرتی ہے، تہذیب و ثقافت کے جلوے بکھرتے ہیں اور بے مایہ انسان میں وہ قوت رونما ہوتی ہے جس سے جہاں بینی و جہاں بانی کے جوہر کُھلتے ہیں۔
کی محمد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں
(صحابہ کرام کا عشق رسول،ص17)
سچے عاشقانِ رسول:سچّی بات ہے کہ عشقِ رسول کی تاثیر بڑی حیرت انگیز ہے،یہ مشکلات میں بندۂ مومن کی بھرپور راہنمائی کرتا،روحانی بیماریوں کا شافی علاج کرتا، اندھیروں میں روشنی بکھیرتا،بھٹکے ہوئے آہوؤں کوسوئے حرم لے جاتا اور مخلوق کو خالق سے ملاتا ہے ۔یہ عشق ِرسول ہی تو ہے جس نے حضرات ِصَحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کو غلامی محبوب میں ایسا مُسْتَغْرق و مُنْہَمک کردیا کہ انہیں دنیا کی کسی شے اور نسبت سے کوئی غرض نہ رہی،وہ سب کچھ برداشت کرسکتے تھے مگرانہیں اپنے جانِ جاناں اور دلوں کے چین صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکی شانِ اقدس میں ذَرَّہ بھربے اَدبی گوارہ نہیں تھی،وہ اپنے آقا ومولا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے نسبت رکھنے والی ہر شے سے بے پناہ محبت کرتے تھے، بات اگرشریعت مصطفٰی کی بالادستی اور نفاذ کی ہوتی تووہ نفوس قدسیہ اپنی ذوات تک کو بھی مستثنیٰ نہیں سمجھتے تھے،ہر حکِم نبوی کے سامنے سرِتسلیم خَم تھا۔صحابہ کا اندازِ عشق یہ عشقِ رسول ہی تھاکہ رَحْمتِ عالَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے وضو کا پانی یاجسِم اَطْہر سے جُدا ہونے والے بال حاصل کرنے میں بے حد کوشش کرتے،آپ کالُعابِِ دَہن ہاتھوں میں لے کر چہروں اور جسم پر ملتے تھے۔ مصطفٰی جانِ رَحمت صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم پوچھتے:مَایَحْمِلُکُمْ عَلَی ہٰذَا یعنی کیا چیز تمہیں ایسا کرنے پر اُبھارتی ہے؟ تو”جان ہے عشقِ مصطفےٰ“ کے سچےّمصداق عرض کرتے:حُبُّ اللہِ وَرَسُوْلِہٖیعنی اللہ ورسول کی محبت ہم سے ایسا کرواتی ہے۔(مشکوٰۃ،ج2،ص216،حدیث:4990)اسی لئے تو کوئی صدیقِ اکبر،کوئی فاروقِ اعظم،کوئی غنی وباحیا اورکوئی شیرخدا ومشکل کشا بن گئے، الغرض اس نعمتِ عظمٰی کی بدولت ہرصَحابی آسمانِ ہدایت کا دَرَخْشَنْدہ ستارہ بن گیا رضی اللہ تعالٰی عنہم ۔عشقِ رسول انسانوں تک محدود نہیں عشقِ رسولسے نہ صِرْف انسان مزیّن وآراستہ ہوئے بلکہ دیگر مخلوقات بھی روشن ومنور ہوئیں،کتبِ احادیث و سیرت کے مُطَالعہ سے یہ بات عیاں ہے کہ جن واِنس ہوں یاحورومَلَک،شجر و حجرہوں یاچرندوپرند،چوپائے ہوں یا حشراتُ الارض الغرض مخلوق میںعاشقانِ رسول کی طویل فہرستیں ہیں،محبتِ رسول کے ایمان افروز واقعات ہیں،اُلفتِ رسول کی لازوال داستانیں ہیں اورچاہتِ رسول کی خوبصورت یادیں ہیں ۔
حضورِاکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے کیوں محبت کی جائے؟آخر کیا وجہ ہے کہ چہار دانگ عالَم میں حضورجانِ رحمت صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمسے محبت وعشق کا شہرہ ہے؟بات دراصل یہ ہے کہ کسی سے محبت وعشق کی جتنی بھی وجوہات ہوسکتی ہیں اور جتنے بھی اسباب ممکن ہیں وہ تمام بَدرجۂِ اتم حضورنبیِّ آخرُالزّمان صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذات اقدس میں موجود ہیں ،حسن وجمال ہو یا زہدوتقوی،علم وحکمت ہو یا جودو سخا،شفقت ورحمت ہو یا حسنِ اخلاق،قوت وطاقت ہویا دادودہش ،عِلْم واَدب کی تعلیم ہو یا تربیَت وتنظیم کی راہنمائی ،دنیا وآخِرت کے مصائب کو دور کرنا ہو یاپھرعنایات واحسانات ہوں،یہ سب خوبیان وکمالات ذاتِ مصطفیٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں اپنی