Brailvi Books

فیضانِ مدینہربیع الاول ۱۴40ھ نومبر/دسمبر 2018ء
15 - 59
بلکہ حدیث پاک میں نئی اور اچّھی چیز ایجاد کرنے والے کو تو ثواب کی بشارت ہے۔ چنانچہ مسلم شریف میں ہے: ”مَنْ سَنَّ في الإسلامِ سنَّةً حَسَنَةً فَلَهُ أجْرُهَا، وَأجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا بَعْدَهُ، مِنْ غَيرِ أنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورهمْ شَيءٌ، وَمَنْ سَنَّ في الإسْلامِ سُنَّةً سَيِّئَةً كَانَ عَلَيهِ وِزْرُهَا، وَ وِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ بَعْدِهِ، مِنْ غَيرِ أنْ يَنْقُصَ مِنْ أوْزَارِهمْ شَيءٌ‘‘ ترجمہ: جو کوئی اسلام میں اچھا طریقہ جاری کرے تو اس پر اسے ثواب ملے گا اور اس کے بعد جتنے لوگ اس پر عمل کریں گے تمام کے برابر اس جاری کرنے والے کو بھی ثواب ملے گا اور ا ن کے ثواب میں کچھ کمی نہ ہوگی۔ اور جو شخص اسلام میں بُرا طریقہ جاری کرے تو اس پر اسے گناہ ملے گا اور اس کے بعد جتنے لوگ اس پر عمل کریں گے ان سب کے برابر اس جاری کرنے والے کو بھی گناہ ملے گا اور ان کے گناہ میں بھی کچھ کمی نہ ہوگی۔(مسلم، ص394، حدیث:1017)
 جشنِ ولادت منانا بھی ایک اچّھا کام ہے جو کسی سنّت کے خلاف نہیں بلکہ عین قرآن و سنّت کے ضابطوں کے مطابِق ہے۔ رب تعالیٰ کی نعمت پر خوشی کا حکم خود قرآنِ پاک نے دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:( قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَ بِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْیَفْرَحُوْاؕ-) ترجمۂ کنز الایمان:تم فرماؤ اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اور اسی پر چاہیے کہ خوشی کریں۔(پ11، یونس :58)
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:(  وَ اَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ۠(۱۱)) (پ30، والضحٰی:11) ترجمۂ کنز الایمان: اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو۔  
خود حضورِ اکر م صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اپنا یومِ میلا د روزہ رکھ کر مناتے چنانچہ آپ ہر پیر کو روزہ رکھتے تھے جب اس کی وجہ دریافت کی گئی تو فرمایا:’’اسی دن میری ولادت ہوئی اور اسی روز مجھ پر وحی نازل ہوئی۔“ (مسلم،ص455، حدیث:2750)
خلاصۂِ کلام یہ کہ شریعت کے دائرہ میں رہ کر خوشی منانا ، مختلف جائز طریقوں سے اِظہارِ مَسرّت کرنا اور محافلِ میلاد کا انعقاد کر کے ذکرِ مصطفےٰ کرتے ہوئے ان پر مسرت و مبارک لمحات کو یاد کرنا جو سرکارِ دو عالَم صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا میں تشریف لانے کا وقت ہے بہت بڑی سعادت مندی کی بات ہے۔مزید تفصیل کے لئے علمائے اہلِ سنّت کی کتب کا مطالعہ فرمائیں۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
 کیا فتاویٰ رضویہ میں تاریخ ِولادت 8 ربیع الاول لکھی ہے؟
سوال: کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ کچھ لوگوں نے اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ کا حوالہ دےکر ایک اسٹیکر شائع کیا ہے جس میں درج ہے کہ آپ نے اپنے رسالے”نطق الہلال“ فتاویٰ رضویہ، جلد26  میں لکھا ہے کہ ولادتِ (پیدائش) نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم 8ربیعُ الاوّل ہے اور وفاتِ نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم 12ربیع ُالاوّل ہے۔کیا واقعی اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن کا یہی موقف ہے کہ حُضورِ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ولادت آٹھ ربیعُ الاوّل کو ہوئی؟
بِسْمِ اﷲالرَّحْمٰنِِ ا لرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب: اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنت مجدد دین و ملت شاہ امام احمد رضا خان   علیہ رحمۃ الرحمٰن کی تحقیق یہی ہے کہ جشن ولادت بارہ ربیع الاوّل کو منایا جائے۔ 
فتاویٰ رضویہ جلد 26 صفحہ 411 پر ہے۔”اس(ولادت کی تاریخ کے بارے) میں اقوال بہت مختلف ہیں، دو، آٹھ، دس، بارہ، سترہ، اٹھارہ، بائیس، سات (7) قول ہیں مگر اشہر و اکثر و مأخوذ و معتبر بارہویں ہے۔  مکۂ معظّمہ میں ہمیشہ اسی تاریخ کو مکانِ مولِد اقدس کی زیارت کرتے ہیں کما فی المواھب والمدارج (جیسا کہ مواھب لدنیہ اورمدارج نبوۃ میں ہے) اورخاص اس مکانِ جنّت نِشان میں اسی تاریخ میں مجلسِ میلادِ مقدّس ہوتی ہے۔“
فتاویٰ رضویہ جلد 26 صفحہ 427 پر ہے:’’شَرْعِ مُطہّر میں مشہور بینَ الجمہور ہونے کے لئے وقعتِ عظیم ہے (یعنی جوموقف اکثر علما کا ہووہ خود ایک بہت بڑی دلیل ہوتی ہے)اور مشہور عندَ الجمہور 12ربیع ُالاوّل ہے‘‘ اور علِم ھَیْئَت و زیجات کے حساب سے روز ولادت شریف 8ربیعُ الاوّل ہے۔
 مزید فرماتے ہیں ’’ تعامل مسلمین حرمین شریفین و مصر وشام بلاد اسلام و ھندوستان میں بارہ ہی پر ہے اس پر عمل کیا جائے۔الخ“
جب کوئی محققِ وقت کسی مسئلہ پر قلم اٹھاتا ہے تو وہ اس مسئلہ سے متعلّق مختلف لوگوں کی آراء اور اقوال بھی نقل کرتا ہے اس مقام پر امامِ اہلِ سنّت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ نے اسی طرح کا طرزِعمل اختِیار کرتے ہوئے مختلف لوگوں کے موقف کوبھی بیان فرمایا اور علم زیج والوں کا قول بھی نقل کیا کہ وہ تمام کے تمام آٹھ ربیعُ الاوّل کو یوم ولادت قرار دیتے ہیں۔
محض آدھی بات کو لےکر پروپیگنڈا کرنا اور اس بات کو چھوڑ دینا  کہ امامِ اہلِ سنّت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے جمہور کا موقف کس تاریخ کو قرار دیا ہے اور کس تاریخ کو جشنِ ولادت منانے کی تاکید کی ہے انصاف کے خلاف اور غلط روش ہے۔ خود امامِ اہلِ سنّت رحمۃُ اللہِ تعالٰی علیہ نے اپنے اشعارمیں بارہویں تاریخ ہی کو لے کر لمحات مسرّت ہونا بیان کیا اور برادرِ اعلیٰ حضرت نے تو ایک پورا کلام ہی ”بارہویں تاریخ“ کا قافیہ لے کر کہا ہےاور ان کا وصال امامِ اہلِ سنّت کی زندگی ہی میں ہوا اور امامِ اہلِ سنّت ان کے کلام کے پڑھنے کی تاکید کرتے رہے۔ پھر یہ کہنا اور ثاثّر دینا کہ12 تاریخ کو جشنِ ولادت منانا امامِ اہلِ سنّت  رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی  مَنْشا کے خلاف ہے بہت بڑی زیادتی ہے۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…	دارالافتاء اہل سنت نور العرفان ،کھارادر ،باب المدینہ کراچی