Brailvi Books

ماہنامہ فیضان مدینہ جمادی الاولیٰ1440
7 - 60
حدیث شریف اور اس کی شرح
ناپسندیدہ کام 
(محمد ہاشم خان عطاری مدنی)
رسولِ کریم، رءوفٌ رَّحیم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے: اَبْغَضُ الْحَلَالِ اِلَى اللَّهِ تَعَالٰى اَلطَّلَاقُ  یعنی حلال چیزوں میں خدا کے نزدیک زیادہ نا پسندیدہ طلاق ہے۔(ابو داؤد،ج2،ص370، حدیث:2178)
شرحِ حدیث علّامہ شرفُ الدّین حسین بن عبداللہ طِیْبی علیہ رحمۃ اللہ القَوی (سالِ وفات: 743ھ) فرماتے ہیں: اس حدیثِ پاک میں اس بات کا بیا ن ہے کہ طَلاق مَشْروع ہے یعنی دیں گے تو ہوجائے گی مگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک مَبْغُوض یعنی ناپسندیدہ ہے جیسا کہ بغیر عُذرِ شرعی کے فرض نماز گھر میں پڑھنا، غَصْب شُدَہ زمین میں نماز پڑھنا (کہ ان دونوں صورتوں میں نماز ہوجائے گی مگر اس طرح کرنے والا گناہ گار ہوگا)، اسی طرح جمعہ کے دن اذانِ جمعہ کے بعدخریدوفروخت کرنا (کہ یہ خریدوفروخت ہوجائے گی مگر کرنے والے گناہ گار ہوں گے)۔ (شرح المشکوۃ للطیبی،ج7،ص2342،تحت الحدیث:3280)
علّامہ علی بن سلطان محمد قاری حنفی علیہ رحمۃ اللہ القَوی (سالِ وفات: 1014ھ) اس حدیثِ پاک کی شرح میں فرماتے ہیں: اَصَحْ یہ ہے کہ حاجت کے علاوہ طَلاق دینا ممنوع ہے، لفظِ مُباح اس چیز پربھی بولا جاتا ہے جو بعض اوقات میں مباح ہو، یعنی طلاق صرف اس وقت دینا مباح ہے جب اس کی حاجت و ضرورت مُتَحَقَّق ہو۔ (مرقاۃ،ج 6،ص422،تحت الحدیث:3280)
طلاق دینا سوائے حاجت کے ممنوع ہے فتاویٰ رضویہ میں موجود ایک فارسی فتویٰ کا ترجمہ وخلاصہ ہے:طلاق کے مباح یعنی جائز ہونے میں عُلَما کے تین اقوال ہیں: (1)ایک یہ کہ طلاق مطلقاً مُباح ہے اگرچہ بِلاوَجہ دی جائے (2)دوسرا یہ کہ بیوی کے بڑھاپے یا اس کی آوارگی یا بَدوَضْعِی کے بغیر شوہر کے لیے طلاق دینا مباح نہیں، یہ ضعیف قول ہے (3)تیسرا قول یہ ہے کہ اگر شوہر کو طلاق کی کوئی حاجت ہے تو مُباح ہے ورنہ ممنوع ہے، یہی قول صحیح اور دلائل سے مُؤَیَّد ہے۔ علّامہ مُحَقِّق نے فتحُ القدیر میں اس کو صحیح قرار دیا ہے اور علّامہ خاتمۃ المُتَحَقِّقین شامی نے اس کا دِفاع کیا ہے جس سے اس کی صحّت مُسْتَفاد ہوتی ہے۔ (فتاویٰ رضویہ،ج 12،ص321،322 ملخصاً)
مزید ایک مقام پر اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں: بِلاوجہِ شرعی طلاق دینا اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند و مَبغوض و مکروہ ہے۔(فتاویٰ رضویہ،ج 12،ص323)
حلال اور ممنوع ایک جگہ جمع ہوسکتے ہیں امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن فرماتے ہیں:شَے واحدمیں حِلّ و حَظْر (حلال ہونے اورمنع ہونے) کا دو جِہَت سے مجتمع ہونا کچھ بعید نہیں، طلاق فی نفسہٖ حلال ہے اور ازانجاکہ شرع کو اِتفاق محبوب اور اِفْتِراق مبغوض ہے، بے حاجت یا رِیت مَحْظور (ممنوع) ہے۔ (فتاویٰ رضویہ،ج12،ص330)
طلاق کے ناپسندیدہ ہونے کی وجوہات(1)اس(یعنی طلاق) میں نعمت ِنکاح کی ناشکری ہے۔(مرقاۃ،ج6،ص421،تحت الحدیث: 3280) (2)اس میں رشتے کا کاٹنا پایا جاتا ہے۔ (3)طلاق دینے میں ایک دوسرے کے دِلوں میں بُغْض وعَداوَت پیدا ہوجاتی ہے۔ (4)طلاق کی وجہ سے اکثر اوقات فریقَیْن حرام میں مبتلاہو جاتے ہیں۔ (کہ ایک دوسرے کی غیبتیں، دل آزاریاں وغیرہ کرنے میں مبتلا ہوجاتے ہیں) (حاشیۃ السندی علی سنن ابن ماجہ،ج 1،ص500،تحت الحدیث: 2018) (5)شیطان کے نزدیک تمام چیزوں سے بڑھ کر محبوب یہ ہے کہ زَوْجَیْن میں تفریق ڈال دے، تو مناسب ہوا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام حلال چیزوں میں سب سے بڑھ کر مبغوض ہو۔(شرح المشکوٰۃ للطیبی،ج 7،ص2342، تحت الحدیث:3280)
طلاق دینے کی مختلف صورتوں کے احکام صدرُالشّریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القَوی فرماتے ہیں: طلاق دینا جائز ہے مگر بے وجہِ شرعی ممنوع ہے اور وجہِ شرعی ہو تو مباح بلکہ بعض صورتوں میں مستحب مثلاً عورت اس کو یا اوروں کو ایذا دیتی یا نماز نہیں پڑھتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ بے نمازی عورت کو طلاق دے دوں اور اُس کا مہر میرے ذمہ باقی ہو، اس حالت کے ساتھ دربارِ خدا میں میری پیشی ہو تو یہ اُس سے بہتر ہے کہ اُس کے ساتھ زندگی بسر کروں۔ اور بعض صورتوں میں طلاق دینا واجب ہے مثلاً شوہر نامرد یا ہیجڑا ہے یا اس پر کسی نے جادو یا عمل کردیا ہے کہ جماع کرنے پر قادر نہیں اور اس کے ازالہ کی بھی کوئی صورت نظر نہیں آتی کہ ان صورتوں میں طلاق نہ دینا سخت تکلیف پہنچانا ہے۔ (بہار شریعت،ج2،ص110)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…دارالافتا اہل سنت ،مرکزالاولیاء لاہور