Brailvi Books

ماہنامہ فیضان مدینہ جمادی الاولیٰ1440
20 - 60
معاشرے کے ناسور
جہالت
(محمد آصف عطاری مدنی)
 مکّۂ پاک کی مسجدُ الحرام کے ایک خادم کے بیان کا خلاصہ ہے کہ میری ڈیوٹی صفا و مروہ کے قریب زَم زَم شریف کے کولروں پر تھی، ایک صاحب میرے پاس آئے جن کی عمر تقریباً 50 سال ہوگی اور وہ اچّھے خاصے صحت مند تھے۔ مجھ سے پوچھنے لگے کہ’’ ہم میاں بیوی لاہور سے عمرہ کرنے آئے ہیں، ہم نے سات چکر صفا مروہ کے لگائے ہیں کیا کچھ اور کرنا بھی باقی ہے؟‘‘انہوں نے طواف کئے بغیر ہی صفا مروہ کی سعی کرلی تھی۔مجھے علمائے کرام کی صحبت اور وہاں پر عملی تَجْرِبات کی وجہ سے اچّھی خاصی معلومات ہوچکی تھیں، میں نے انہیں بتایا کہ عمرے میں پہلے خانۂ کعبہ کا طواف کرنا ہوتا ہے پھر طواف کے دو نفل پڑھ کر صفا مروہ کے سات چکر لگانے ہوتے ہیں، اس کے بعد سعی کے دو نفل پڑھ کر احرام کھولنا ہوتا ہے (یعنی مرد کو سر منڈانا اور عورت کو ایک پورے کے برابر سر  کے بال کاٹنا ہوتے ہیں )۔یہ سن کر بڑے میاں تو یہ سارے کام کرنے پر تیّار ہوگئے لیکن ان کی بیوی کہنے لگی کہ میں تو بہت تھک گئی ہوں،اب مجھ سے نہیں ہوتا،اللہ معاف کرنے والا ہے ۔ (الامان والحفیظ یعنی اللہ کی پناہ اور اس کی حفاظت)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! علمِ دین نُور ہے جس کی روشنی میں دنیا و آخرت کا سفر بہترین انداز میں طے ہوتا ہے جبکہ جہالت ایک ناسُور ہے جو انسان سے قدم قدم پر غلطیاں کرواتا ہے جس کی وجہ سے اس کی آخرت تباہ ہوسکتی ہے۔ علمِ دین سے جتنی دوری ہوگی اسی قدر جہالت سے نزدیکی ہوگی۔یاد رہے کہ خالی اپنا نام لکھ لینے یا لکھا ہوا پڑھ لینے سے جہالت کے اندھیرے دُور نہیں ہوجاتے بلکہ حقیقۃً پڑھا لکھا وہ ہے جو علمِ دین رکھتا ہو۔ جاہلوں کی قسمیں  جاہلوں کی بنیادی طور پر تین قسمیں ہوتی ہیں: ایک وہ جو جانتے ہیں کہ ہمیں دین کا علم نہیں ہے ایسے لوگ علمِ دین سیکھنے کے لئے بھی تیّار ہوجاتے ہیں اور مفتی یا عالِم دین سے  راہنمائی بھی لیتے رہتے ہیں۔ دوسرے وہ لوگ جنہیں یہ بھی احساس نہیں ہوتا کہ ہم جاہل ہیں، ایسے لوگ جہالت کے اندھیروں میں بھٹکتے رہتے ہیں علمِ دین سیکھنے کا بولا جائے تو انہیں گھبراہٹ ہونے لگتی ہے۔ تیسرے وہ لوگ جو جاہل ہوتے ہوئے بھی اس خوش فہمی میں رہتے ہیں ہم بھی دین کا علم رکھتے ہیں، ایسے لوگوں کو علمِ دین سکھایا جائے تو کہتے ہیں:’’ہمیں نہ سکھاؤ، ہمیں آتا ہے۔‘‘ اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے والے لوگ اسلام نے زندگی کے ہر معامَلے کے لئے راہنمائی کی ہے، ایک مسلمان کو عبادت کے ساتھ ساتھ اپنے گھر بار، کاروبار، شادی بیاہ، غمی خوشی، رہن سہن، کھانے پینے، بولنے سننے وغیرہ کے معامَلات بھی شرعی احکام کے مطابق انجام دینا ضروری ہیں مگر افسوس! اب ایسا نازک دور آیا کہ اوّل تو لوگ کوئی کام کرنے سے پہلے اس کے بارے میں حکمِ شریعت معلوم کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے اور اگر معلوم کربھی لیں تو اس شرعی حکم پر عمل کرنے کا جذبہ نہیں ہوتا۔ پھر عوام میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو مفتی یا عالم سے معلومات حاصل کرنے کے بجائے غلط مسائل بتاتا ہے، یوں خود بھی ڈوبتا ہے اور دوسروں کو بھی لے ڈوبتا ہے، پھر اگر وہ بدنصیب ’’لِبرلز (Liberals یعنی مادر پِدر آزادی چاہنے والوں)‘‘ میں سے ہو تو اس کے منہ سے اس طرح کے کلمات بھی سنائی دیں گے: ان مولویوں کو کیا پتا؟ انہیں دین کی کیا خبر؟ مولاناؤں کی باتوں پر عمل کیا تو ہم ترقّی نہیں کرسکیں گے! یہ ہمیں پتّھر کے دور میں واپس لے جانا چاہتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ جس کا کام اسی کو ساجھے عربی زبان کا محاورہ ہے: لِکُلِّ فَنٍّ رِجَالٌ(یعنی ہر کام کے لئے ماہرین ہوتے ہیں) یہی بات اردو میں یوں مشہور ہے: ’’جس کا کام اُسی کو ساجھے‘‘، شاید کبھی آپ نے دیکھا ہو کہ اچّھا بھلا سمجھدار آدمی بھی میڈیکل چیک اپ کرواتے وقت عجیب حرکتیں کرنے لگتا ہے، ڈاکٹر کے ایک اِشارے پر پورا منہ کھول کر دانت، زبان اور گلا اندر تک دکھاتا ہے،ڈاکٹر سینے یا کمر پر اسٹیتھوسکوپ (Stethoscope) رکھ کر تیزتیز سانس لینے کا بولے تویہ پوری فرمانبرداری سے عمل کرتا ہے چاہے اس وقت دَمے (سانس کی بیماری) کا مریض کیوں نہ لگ رہا ہو! ’’بازو اوپر کرو، گردن گھماؤ، سیدھے کھڑا ہوجاؤ، تھوڑا چل کر دکھاؤ، جھک کر دکھاؤ،‘‘ ڈاکٹر جتنی فرمائشیں کرے مریض کسی غلام کی طرح فوراً پوری کرتا ہے، ایسے شخص سے اگر پوچھا جائے کہ یہ سب حرکتیں کیوں کررہے ہو تو جواب ملے گا کہ جناب! ڈاکٹر کے کہنے پر،یہ اس کا شعبہ ہے کیونکہ وہ میڈیکل پڑھا ہوا ہے۔ کوئی مریض ڈاکٹر کویہ جواب نہیں دیتا کہ جناب تھوڑا بہت میں بھی میڈیکل جانتا ہوں، بخار بھی چیک کرلیتا ہوں،یا کوئی یوں بولتا ہو کہ ڈاکٹروں کو میڈیکل کی کیا سمجھ! خوامخواہ اچّھے بھلے بندے کو بستر پر لٹا دیتے ہیں، کڑوی اور مہنگی دوائیاں وہ بھی کئی کئی دن تک کھانے کا بولتے ہیں مگر آہ! جب بات مفتی صاحب یا عالمِ دین کی آتی ہے تو یہی حق اس کو دینے کو تیّار نہیں ہوتے کہ جناب آپ دین کا علم رکھتے ہیں آپ جو کہیں گے اُسی پر عمل کروں گا، یہاں تو بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ اگر شرعی مسئلہ اپنی خواہش کے مطابق نکلا تو ٹھیک! اور اگر اپنے مفاد کو نقصان پہنچتا ہو تو علمائے کرام کو بُرا بھلا تک کہہ ڈالتے ہیں کہ یہ غلط مسئلے بتاتے ہیں۔علمائے کرام کی عزّت کرنا سیکھیں دنیا میں اس وقت کئی مَذاہِب کے پیروکار موجود ہیں، جو باطل ہوتے ہوئے بھی اپنے مذہبی پیشواؤں کےخلاف نہ خود بولتے ہیں نہ کسی اور کو بولنے دیتے ہیں بعض تو لڑنے مرنے پر تیّار ہوجاتے ہیں، جبکہ دوسری طرف مخصوص ذہنیت کے لوگ ہیں جو خود علمائے اسلام کی عزّت نہیں کرتےاوران کے خلاف بولنے سے نہیں جھجکتے وہ دوسروں کو اپنے مذہبی پیشواؤں کی بے ادبی اور بے حُرمتی کرنے سے کیا روکیں گے! یاد رکھئے! جو اپنے بڑوں کی عزّت نہیں کرتے ان کی اپنی عزّت بھی نہیں ہوتی۔ اللہ پاک ایسوں کو توبہ اور علمائے اسلام کی قدر جاننے کی توفیق دے۔ غلط مسائل پر عمل عوام میں ایک طبقہ وہ بھی ہے جو شریعت پر عمل کرنے کے گمان میں غلط مسائل پر عمل کررہا ہوتا ہے، مثلاً ٭’’سفر میں جس طرف چاہو منہ کرکے نماز پڑھ لو‘‘ حالانکہ اس کی مکمل راہنمائی موجود ہے کہ قبلے کی سمت (Qibla Direction) کیسے معلوم کی جاسکتی ہے اگر پھر بھی معلوم نہ ہوسکے تو نماز میں رُخ کس طرف کرنا ہے؟(1)٭’’دودھ پیتے بچّے کا پیشاب پاک ہوتا ہے‘‘ حالانکہ دودھ پیتے بچّے کا پیشاب بھی نَجاستِ غلیظہ اور ناپاک ہے۔ (بہارِ شریعت ،ج1،ص390ملخصاً) ٭’’منہ بولے بیٹے یا بھائی سے پردہ نہیں کیا جاتا ‘‘ حالانکہ کسی کو باپ، بھائی يا منہ بولا بیٹا بنالينے سے وہ حقیقی باپ، بھائی اور بیٹا نہيں بن جاتا۔ وہ نامحرم ہی رہتا ہے اور اس سے پردہ ضروری ہے۔ (پردے کے بارے میں سوال جواب،ص67ملخصاً) ٭بعض 


________________________________
1 -   اس کی تفصیلی معلومات کے لئے بہارِ شریعت،حصہ 3، جلد1،صفحہ 661تا662پڑھئے