مضامین
قراٰنی حکایت
بے ادبوں کا انجام
(محمد بلال رضاعطاری مدنی)
ہمارے پیارے آقا صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے 40 سال کی عمْر میں نُبوّت کا اِعلان فرمایا اور تین سال تک رازداری سے اِسلام کی دعوت دیتے رہے۔تین سال بعد اللہ پاک کی طرف سے حکم ہوا کہ خاندان کے قریبی افراد کو جمع کرکے اُنہیں اِسلام کی دعوت دیں، چنانچہ پیارے آقا صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ’’صَفا‘‘ نامی پہاڑ پر قریش کے لوگوں کو جمع کیا اور اُن سے اپنے صادِق و امین ہونے کی گواہی لی، اِس کے بعد آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے اُنہیں ایمان لانے کی دعوت دی اور ایمان نہ لانے کی صورت میں اللہ پاک کے عذاب سے ڈرایا۔ یہ سن کر آپ کا چچّا ابو لَہَب اور اُس کے ساتھی بھڑک گئے، ابو لَہَب یوں بکواس کرنے لگا: تم تباہ ہوجاؤ! کیا تم نے ہمیں اس لئے جمع کیا تھا! (مَعَاذَ اللہ)۔ یوں ابو لَہَب اور اُس کے ساتھی شانِ رِسالت میں گستاخانہ جملے بولتے اور بے اَدَبی کرتے ہوئے وہاں سے چلے گئے۔ ابو لَہَب کی بدبودار لاش پیارے مَدَنی مُنّو اور مَدَنی مُنّیوں ! اللہتعالیٰ نے اپنے حبیب صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اس گستاخی پر قراٰنِ کریم کی ایک پوری سورت، ابولہب اور اس کی بیوی کے رد میں نازل فرمائی اور ان کی ہلاکت سے پہلے ہی ان کا انجام بتادیا۔ ہوا یوں کہ مسلمانوں کے مدینۂ مُنوّرہ کی طرف ہجرت کرنے کے دو سال بعد ابو لَہَب کالے دانے کی ایک بیماری میں مبتلا ہوگیا جسے عَرَب میں ’’عَدَسہ‘‘ کہا جاتا تھا، عَرَب کے لوگ اِس بیماری میں مبتلا شخص کے قریب نہیں جاتے تھے، اُن کا خیال تھا کہ قریب جانے سے یہ بیماری دوسرے کو بھی لگ جاتی ہے، یوں بیماری کے دوران کوئی ابولَہَب کو پوچھنے نہ آیا اور وہ بے بسی کے عالَم میں ایک ہفتے بعد مرگیا۔ تین دن تک اُس مَرْدُود کی لاش پڑی رہی اور پڑے پڑے پُھولنے کے بعد پَھٹ گئی۔ بیگانے تو کیا اس کے سگے بیٹے بھی اس کے قریب نہ آئے۔ جب شدید بدبو کی وجہ سے لوگوں کا جینا مشکل ہوگیا تو انہوں نے اس کے بیٹوں کو بُرا بھلا کہا۔ بالآخِر اس کے بیٹوں نے کچھ مزدوروں کو اُجرت دے کر اُس کی لاش کہیں دفن کروا دی۔ بیوی کی پھندہ لگی لاش پیارے مَدَنی مُنّو اور مَدَنی مُنّیو! ابو لَہَب کی بیوی اُمِّ جمیل بھی پیارے آقاصلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلمکوتکلیف پہنچانے میں ابولَہَب سے کم نہ تھی، یہ بد بخت عورت اپنے سَر پر کانٹوں سے بھرا ہوا گٹّھا اُٹھا کر لاتی اور پیارے آقا صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کے راستے میں کانٹے بچھاتی تھی۔ اِس کو گستاخیِ کی سزا کچھ یوں ملی کہ ایک دن یہ اپنے گلے میں بندھی رسّی سے کانٹوں کا گٹّھا باندھ کر لارہی تھی کہ ایک جگہ آرام کرنے کے لئے بیٹھ گئی، اتنے میں اللہ پاک کے حکم سے ایک فرشتے نے پیچھے سے اس گٹّھے کو کھینچا جس سے اُمِّ جمیل کے گلے میں پھندا لگا اور یہ گلا گھٹنے کی وجہ سے مرگئی۔ (ماخوذ ازسیرت مصطفےٰ، ص111-113۔ صراط الجنان،ج 10،ص857-861)
پیارے مَدَنی مُنّو اور مَدَنی مُنّیو! گستاخِ رسول دنیا میں بھی تباہ ہوتا ہے اور اُس کی آخِرت بھی برباد ہوتی ہے۔اللہ پاک ہمیں مرتے دَم تک با اَدَب رہنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
مَحفوظ سدا رکھنا شہا! بے اَدَبوں سے
اور مجھ سے بھی سَرزَد نہ کبھی بے اَدَبی ہو
(وسائلِ بخشش (مُرَمّم)، ص 315)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…ذمّہ دار شعبہ فیضان امیر اہلسنت ،المدینۃالعلمیہ ،باب المدینہ کراچی