مدنی منّوں اور مدنی منّیوں کے لئے
روشن مستقبل
اچھی بات بچالیتی ہے
(محمد ناصر جمال)
دادا جان! امام صاحب کو سب اتنا پسند کیوں کرتے ہیں؟ مسجد سے گھرآتے ہوئے شاکِر کے اس سوال پر شہریار صاحب کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔راستے میں دونوں طرف طرح طرح کے پھول (Flowers) کِھلے ہوئے تھے، شہریار صاحب نے ان پھولوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: شاکِر! ہماری آنکھوں کو یہ پھول کیوں اچّھے لگتے ہیں؟ شاکِر نے جھٹ جواب دیا: دادا جان! اپنے حُسن (Beauty) اور خوشبو (Fragrance)کی وجہ سے۔ اس جواب پر دادا جان کی زبان سے بے ساختہ سُبْحٰنَ اللہ نکلا، شاکِر نے دادا جان کی توجّہ دوبارہ اپنے سوال کی جانب کرواتے ہوئے کہا: دادا جان! وہ میرا سوال؟ ”بتاتے ہیں بتاتے ہیں“دادا جان نے شاکِر کے سَر پر شفقت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے جواب دیا۔ مسجد سے گھر تک کا سفر خَتْم ہوا مگر شاکِر کی بےتابی بڑھنا شُرُوع ہوگئی، وہ دادا جان کے سمجھانے اور سِکھانے کے انداز کو جانتا تھا مگر اِس بار بھی اُس کا ذہن یہ سمجھ نہیں پارہا تھا کہ دادا جان نے مجھے جواب دینے کے بجائے پھولوں کے اچّھے لگنے کا سوال کیوں کیا؟ دادا جان مجھے کیا سمجھانا چاہ رہے تھے؟ وہ انہی سوچوں میں گم تھا کہ دادا جان کی آواز نے اُسے چونکا دیا: شاکِر بیٹا! ہمارے پاس آئیے۔ یہ سنتے ہی اُس نے دوڑ لگادی۔ ”آرام سے! گِر نہ جانا“ دادا جان کی آواز پر وہ کچھ آہستہ ہوا اور صوفے پر ان کے ساتھ آکر بیٹھ گیا، ایک نظر شہریار صاحب نے اپنے ذہین پوتے کو دیکھا اس کے سیکھنے کی لگن اور جُستْجو پر اللہ کا شکر ادا کیا اور مَحَبّت سے قریب کرکے کہا: شاکِر بیٹا! آپ نے آتے ہوئے کِھلے ہوئے پھول دیکھے تھے اور وہ آپ کو خوب صورتی کی وجہ سے اچّھے لگے تھے، پتا چلا کہ کوئی چیز اچّھی لگنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ خوب صورت ہو لہٰذا ”خوب صورت لفظ“ بھی ہمیں ہر دل عزیز بنانے میں بہت مددگار ہوتے ہیں، اسی لئے ہمارے پیارے اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں ارشاد فرمایا ہے: ( قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا )ترجمۂ کنزالایمان: لوگوں سے اچّھی بات کہو۔(پ1،البقرۃ:83) بیٹا!امام صاحب کو لوگ اسی وجہ سے پسند کرتے ہیں کہ وہ اچھا بولتے ہیں۔ دادا جان! اچّھا کیسے بولتے ہیں؟ اس سوال میں شاکِر کا شوق دیدنی تھا، بیٹا! ہم جو سوچتے ہیں وہ بولتے ہیں، اچّھی سوچ اچھا اور بری سوچ برا بُلواتی ہے لہٰذا ہر چیز کے بارے میں اچّھا سوچئے، آپ اچّھا بولنے لگیں گے۔ شہریار کے اس جواب سے شاکِر کی مکمل تسلّی نہیں ہوئی تو اس نے مزید پوچھا: دادا جان! اگر کوئی ہمیں بُرا کہہ دے تو ہم اس کے بارے میں اچّھا سوچ کر اچّھا جواب کیسے دے سکتے ہیں؟دادا جان کہنے لگے: دے سکتے ہیں اور بِالکل دے سکتے ہیں، اللہ کے نیک بندوں نے ہمیں اپنے عمل سے یہی سکھایا ہے، ہم آپ کو ایک حکایت سے یہ بات سمجھاتے ہیں:
بہت بڑے بُزُرْگ حضرت سیّدُنا محمد بن واسِع رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کو ایک مرتبہ گورنر نے بلایا اور کوئی عہدہ دینا چاہا مگر آپ نے لینے سے انکار کردیا ،بدتمیز گورنر نے آپ کو نِہایت غصّہ دلانے والی بات کہی۔شاکِر سے رہا نہ گیا اور یہ سوال کردیا: وہ کیا؟ شہریار صاحب نے بتایا کہ گورنر نے کہا: آپ بے وقوف ہیں۔ تواس پراُن بُزُرْگ کو غصہ آگیا ہوگا؟ شاکِر نے فوراً کہا، شہریار صاحب نے اس سے کہا: بیٹا!یہیں تو ہمیں غصّے پر قابو رکھ کر ایسی بات کہنی ہے جس سے مسئلہ بڑھے نہیں بلکہ حل ہوجائے، وہ بُزُرْگ تھے، اس گُر کو اچّھی طرح جانتے تھے لہٰذا انھوں نے گورنر کو بُرا بھلا کہنے کے بجائے بس اتنا کہا: ’’یہ بات مجھے بچپن سے کہی جارہی ہے۔‘‘(سیر اعلام النبلاء،ج6،ص344) تو کیا ہم بھی بُری بات سُن کر اچّھی بات نہیں کرسکتے؟ بِالکل کرسکتے ہیں اور دل جیت سکتے ہیں۔ شہریار صاحب کی گفتگو ختم ہوچکی تھی، شاکِر کے چہرے سے اچّھا سوچنے اور بولنے کاعزم ظاہر ہورہا تھا وہ سمجھ چکا تھا کہ اچّھی بات ”بچا“ لیتی ہے اور بُری ”پھنسا“ دیتی ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭… ذمہ دار شعبہ فیضان اولیاوعلما،المدینۃالعلمیہ ،باب المدینہ کراچی