ملتے اور گفتگو فرماتے یہاں تک کہ کچھ دن نِکَل آتا تو 2 رَکْعَت نَماز ادا فرما کر اُمَّہاتُ الْمُومِنِین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کی خِدْمَت میں سلام عَرْض کرنے کے لئے تشریف لے جاتے ، وہ آپ کو (خوش آمدید کہتیں اور) بسا اَوقات کوئی چیز تُـحْفَةً پیش فرماتیں۔ اس کے بعد آپ اپنے گھر تشریف لے جاتے۔(1)
کیا بات رضاؔ اُس چمنستانِ کرم کی
زہرا ہے کلی جس میں حُسین اور حسن پھول(2)
صَلُّوا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُتَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
صبح کے وقت کو غنیمت جانئے
میٹھے میٹھے اِسْلَامی بھائیو! صُبْح کے وَقْت کو غنیمت جانئے کہ ہمارے اَسلاف ہمیشہ وَقْت کی قَدْر کرتے ہوئے نَمازِ فَجْر کے بعد اِشْرَاق و چاشت تک کے وَقْت کا بھی خاص خَیال رکھا کرتے اور کوشش فرماتے کہ ان کا یہ وَقْت بھی مَسْجِد ہی میں گزرے ، جیسا کہ نواسۂ رسول حضرت سَیِّدُنا اِمام حَسَن رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے مُتَعَلِّق بیان ہوا کہ وہ نَمازِ فَجْر ادا فرمانے کے بعد سُورَج طُلُوع ہونے تک مَسْجِدِ نَبَوِی ہی میں تشریف فرما رہتے اور اَدائے مُصطفٰے کو ادا کرتے کہ اللہ کے پیارے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکا بھی یہی مَعْمُول مُبارَک تھا کہ جب فَجْر کی نَماز ادا فرماتے تو طُلُوعِ آفتاب تک نَماز پڑھنے کی جگہ پر ہی تشریف فرما
________________________________
1 - تاریخ مدینه دمشق ، ۱۳۸۳-حسن بن علی بن ابی طالب ، ۱۳ / ۲۴۱
2 - حدائق بخشش ، ص۷۹